|
ایران کے صدر کے انتخاب کے لیے جمعے کو پولنگ ہو گی جب کہ صدارتی انتخاب کے لیے چھ امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔
ایران میں صدارتی انتخابات 2025 میں ہونا تھے تاہم گزشتہ ماہ صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد اس عہدے پر چناؤ کے لیے جمعے کو ایرانی عوام ووٹ ڈالیں گے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر کے بعد سب سے مضبوط عہدے کے لیے بیشتر امیدوار قدامت پسند ہیں۔
نمایاں امیدواروں میں پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف، انتہائی قدامت پسند نظریات کے حامل اور جوہری مذاکرات کا حصہ رہنے والے سعید جلیلی اور اصلاح پسند رکنِ اسمبلی مسعود پزشکیان شامل ہیں۔
دیگر امیدواروں میں تہران کے قدامت پسند میئر علی رضا زکانی، مذہبی رہنما مصطفیٰ پور محمدی اور موجودہ نائب صدر امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی شامل ہیں۔
تمام امیدواروں کی انتخابی مہم محدود رہی البتہ صدارتی امیدوار مقامی ٹی وی چینل کے ایک مباحثے میں ایک ساتھ دکھائی دیے۔ صدارتی امیدواروں نے معاشی چیلنجز سے نمٹنے اور ایران کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے وابستہ علی واعظ کہتے ہیں کہ ایران کے نئے صدر کو ریاست اور معاشرے کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی دراڑ کو ختم کرنے کا چیلنج درپیش ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی صدارتی امیدوار نے درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا۔
شہریوں سے ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ جمعے کو ہونے والے الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
اس سے قبل 2021 کے صدارتی انتخابات میں کئی اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدواروں کے نااہل ہونے کے بعد ووٹرز نے ووٹنگ کے عمل میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی جس کے نتیجے میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ لگ بھگ 49 فی صد تھا۔ ایران کے صدارتی انتخابات کی تاریخ میں یہ کم ترین ووٹنگ ٹرن آؤٹ تھا۔
ایران میں ایسے موقع پر صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں جب ملک کو اندرونی طور پر مہنگائی اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
تہران کی رہائشی انجینئر ندا کہتی ہیں کہ انتخابات میں ان کا ووٹ دینے کا ارادہ نہیں کیوں کہ ان کے ووٹ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے ندا نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کون صدر بنے گا کیوں کہ کوئی بھی امیدوار قوم کا ہمدرد نہیں ہے۔
ساٹھ سالہ گھریلو خاتون جالیہ کہتی ہیں کہ وہ اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہیں کیوں کہ وہ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
ایران کے سابق صدر محمد خاتمی اور سابق وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف بھی مسعود پزشکیان کی حمایت کر رہے ہیں۔
جوہری مذاکرات کا حصہ رہنے والے سعید جلیلی مغربی ممالک سے متعلق سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں اس لیے انہیں صدارتی انتخاب میں سخت گیر ذہن کے حامل ووٹرز کی حمایت ملنے کا امکان ہے۔
پینتیس سالہ ٹیکس کنسلٹنٹ علی رضا ولد خانی کہتے ہیں وہ محمد باقر قالیباف کو ووٹ دیں گے اور امید ہے کہ وہ واحد شخص ہیں جو موجودہ حالات میں ملک کو مسائل سے نکال سکتے ہیں۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔
فورم