ایران کی عدلیہ نے واضح کیا ہے کہ جاسوسی کے جرم میں سزا پانے والے دو امریکی باشندوں کی رہائی سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ایرانی عدلیہ نے کہا ہے کہ امریکی شہریوں شین بوئر اور جوش فٹل کے وکلاء کی جانب سے دائر کردہ ضمانت پر رہائی کی درخواستیں تاحال ایک ایرانی عدالت میں زیرِ غور ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ کے بارے میں کسی بھی قسم کے اعلان کا اختیار عدالت کے پاس ہے۔
ایرانی عدلیہ کی یہ وضاحت صدر محمود احمدی نژاد کے اس بیان کے ایک روز بعد سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے عندیہ دیا تھا کہ دونوں امریکی باشندوں کو رہا کیا جاسکتا ہے۔
امریکی ٹی وی 'این بی سی' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ دونوں امریکی ہائکرز کو "آئندہ ایک دو روز میں" انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کردیا جائے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صدر کے اس بیان کو حوصلہ افزاء قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اوباما انتظامیہ کسی "مثبت نتیجے" کی منتظر ہے۔
تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے واضح کیا تھا کہ اسے اس حوالے سے کوئی حتمی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے کہ دونوں امریکی باشندوں کی رہائی نزدیک ہے۔ محکمہ نے کہا تھا کہ وہ اس مسئلہ پر سوئٹزرلینڈ کے سفارت خانے کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے جو امریکہ میں ایران کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔
دونوں کے اہلِ خانہ نے صدر احمدی نژاد کے بیان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس خبر کو "باعثِ تسکین" قرار دیا تھا۔
ایرانی حکام نے دونوں امریکی شہریوں کو ان کی ساتھی خاتون سارا شورڈ کے ہمراہ 2009ء کے وسط میں عراق - ایران سرحد کے نزدیک سے حراست میں لیا تھا۔ تینوں امریکیوں کا موقف تھا کہ وہ شمالی عراق میں ہائکنگ کر رہے تھے اور اگر ان سے سرحد کی کوئی خلاف ورزی ہوئی بھی ہے تو ایسا نادانستگی میں ہوا ہے۔
شورڈ کو ایرانی حکومت نے ایک برس قبل پانچ لاکھ ڈالرز کے ضمانتی مچلکوں پر رہا کردیا تھا جس کے بعد وہ امریکہ روانہ ہوگئی تھیں۔ تاہم ایک ایرانی عدالت نے دونوں مردوں کو گزشتہ ماہ جاسوسی کا الزام ثابت ہوجانے پر آٹھ، آٹھ برس قید کی سزا سنادی تھی۔
بوئر اور فٹل کے وکلاء نے منگل کو کہا تھا کہ دونوں امریکی شہریوں کو بھی پانچ، پانچ لاکھ کے ضمانتی مچلکوں پر رہا کیا جائے گا۔
دونوں کے حامیوں نے انہیں سنائی گئی سزا کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ایرانی حکومت نے ان کے خلاف عدالت میں کوئی قابلِ اعتبار شہادت پیش نہیں کی۔