تقسیم سے قبل کراچی میں لگ بھگ درجنوں ایرانی ہوٹل اور بیکریاں تھیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب صرف انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں۔ یہ الفاظ کراچی کے تاریخی 'خیر آباد ٹی شاپ' کے مالک عباس علی کے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عباس علی نے بتایا کہ "خیر آباد ہوٹل کا نام میرے پردادا نے ایرانی گاؤں کے نام پر رکھا تھا۔ وہ تاجر تھے تقسیم سے قبل 1932 میں وہ کراچی کاروبار کے سلسلے میں آئے تھے یہ جگہ اچھی لگی اور پھر انہوں نے یہاں چائے کا ہوٹل کھول لیا۔"
عباس علی کہتے ہیں کہ آہستہ آہستہ کاروبار بڑھتا گیا اور پھر یہاں ایرانی کھانے بھی ملنے لگے۔
ان کے بقول اس وقت یہاں لاتعداد ایرانی ریستوران تھے لیکن اب یہ دس پندرہ ہی رہ گئے ہیں۔
عباس علی کے مطابق جن لوگوں نے یہ کام شروع کیا ان کے انتقال کے بعد نئی نسل اس کام میں نہیں آئی جبکہ کئی لوگ واپس ایران چلے گئے۔
عباس علی کہتے ہیں کہ جگہ کی قیمت بڑھنے اور مہنگائی میں اضافے نے بھی ان کیفے مالکان کی حوصلہ شکنی کی۔
عباس کہتے ہیں کہ یہ جگہ پر دادا کے بعد دادا نے سنبھالی۔ میں نے یہیں تعلیم حاصل کی ایم اے کیا اور 1972 سے اس کاروبار سے منسلک ہوں۔ یہ ہمارے بزرگوں کی نشانی ہے۔ یہاں لوگوں کی عزت اور پیار ملا جب ہمیں اس ملک نے اتنا کچھ دیا تو ہم اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔
کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں اب بھی کئی ایرانی ہوٹل دکھائی دیتے ہیں جن میں خیر آباد ٹی شاپ، چلو کباب سیستانی، پہلوی ریستوران، کیفے درخشاں، کیفے مبارک سب سے نمایاں ہیں۔ ان کی تاریخ بھی پرانی ہے اور سب سے خاص بات ان کا اب بھی اپنی جگہ موجود ہونا ہے۔
1950 سے 1960 کی دہائی میں ان ہوٹلوں کی تعداد 100 تک تھی جو اب صرف 10 سے 15 ہی رہ گئے ہیں۔ ان کیفیز کی سب سے خاص بات ان کی وہی پرانی تزئین و آرائش ہے۔
بینٹ وڈ کی کرسیاں یا پھر وہ نشستیں جن کے آگے پیچھے ایک بڑا سے لکڑی کا تختہ ہے تاکہ آنے والے تخلیے میں اطمینان سے بیٹھ کر کھانا کھا سکیں۔ گزرے وقتوں میں ایسے فرنیچر کا مقصد یہاں اہل خانہ کے ہمراہ آنے والی خواتین کو پردے کی سہولت فراہم کرنا بھی تھا۔
عباس علی کا کہنا ہے کہ یہاں کا فرنیچر یا آرائش اس لیے بھی قدیم طرز کی ہے کہ یہ اس کی تاریخ کو اجاگر کرتی ہے اور یہ ہماری نشانی ہے۔ اب شہر میں جتنے بھی ایرانی کیفے رہ گئے ہیں ان میں پرانے دور ہی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
ان کے بقول یہاں لوگ اسی پرانی ثقافت اور تاریخی ورثے سے متاثر ہو کر آتے ہیں۔
رخشندہ وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور انہیں ایرانی کیفے میں آ کر لنچ کرنا اس لیے بھی پسند ہے کہ انہیں یہاں بیٹھنے کے انتظام اور یہاں کا ماحول بہت اچھا لگتا ہے۔
رخشندہ کے مطابق یہاں آکر اگر کوئی خاتون اکیلے بھی کھانا کھائے تو اسے گھر جیسا ماحول لگے گا کیوں کہ بیٹھنے کا انتظام ایسا ہے۔ میں یہاں اکثر آتی ہوں کیوں کہ یہاں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے نہ تو کبھی مجھے دوسروں کی طرٖف سے الجھن کا سامنا ہوا نہ ہی کبھی جھجک محسوس ہوئی۔
ان کے بقول میں یہاں کی خاص ایرانی ڈشز بہت شوق سے کھاتی ہوں جن میں خراسانی، سلطانی ڈش جو کہ خاص ایرانی پکوان ہے وہ مجھے پسند ہیں۔ اس کے علاوہ تکہ اور یہاں کا مٹن قورمہ بہت لذیذ ہوتا ہے۔
اولڈ سٹی ایریا میں 1932 سے قائم 'خیر آباد ٹی شاپ' پر آنے والے زیادہ تر افراد دفاتر کے ہوتے ہیں۔ جو اطراف سے لنچ بریک میں یہاں آتے ہیں۔ یاسر یہاں اکثر آتے ہیں۔ انہیں یہاں کی چائے اور خاص سموسے پسند ہیں۔ ہفتے میں دو سے تین بار یہاں آنا ان کا معمول ہے۔ کھانا وہ اسی روز کھاتے ہیں جب ایک ہی وقت میں ان کے کولیگ ان کے ساتھ یہاں آ جائیں۔ ایسے میں کبھی ایرانی تو کبھی پاکستانی کھانا آرڈر کر لیتے ہیں۔
ایرانی کیفوں کی پہچان ان کا ایرانی کھانا ہے۔ کیا پاکستانی اور چائینز کھانے بھی مینیو کا حصہ ہیں؟ اس سوال کے جواب میں عباس علی کا کہنا تھا کہ پاکستانی بہت شوق سے ایرانی کھانے کھاتے ہیں۔ لیکن یہاں آنے والے غیر ملکی بھی ہیں جن کا تعلق چین، ایران اور دیگر ممالک سے ہوتا ہے وہ زیادہ مرچ مصالحے پسند نہیں کرتے۔
ان کے بقول پاکستانی چونکہ مصالحے دار کھانے پسند کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے مینو میں دال سبزی، چکن پلاو، چلو کباب، چلو تکہ بھی شامل ہیں۔
عباس کہتے ہیں کہ مینو میں فش فرائی، جیھنگے سب موجود ہیں ان کے بقول جس کی جیب میں سو روپے بھی ہوں وہ بھی یہاں سے کھانا کھا سکتا ہے۔
'چلو' آخر ہے کیا اور ایرانی کھانے مہنگے کیوں ہیں؟
عباس علی کا کہنا ہے 'چُلو' فارسی میں چاول کو کہتے ہیں۔ ایرانی کھانوں میں زیادہ تر چاول استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ سیخ کباب بھی چاول اور مکھن کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ان کھانوں کے اجزاء بھی کچھ اس طرح کے ہیں کہ قیمت بڑھ جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر ہم نے اپنے پر دادا کے وقتوں سے جو ذائقہ چلتا آ رہا ہے اسے تبدیل نہیں کیا۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے معیار میں کوئی کمی نہ آئے۔
ان کے بقول "میں آج بھی اپنے نوکروں کے ساتھ خود جا کر تیل مصالحے، گوشت، سارا سامان خرید کر لاتا ہوں اور اپنی نگرانی میں پکواتا ہوں کیوں کہ ہمارے باپ دادا کی نصیحت تھی کہ قیمت لو پر مال بھی ویسا دو۔"
کراچی میں رہ جانے والے اب گنتی کے ان ایرانی کیفوں میں اسٹیل کی کیتلی میں ملنے والی گرما گرم چائے ہو یا دیگر کھانے آج بھی شہریوں کو ان ذائقوں سے جوڑے ہوئے ہیں جیسے کوئی اپنے گھر سے جڑا ہوتا ہے۔
ان کیفوں نے نہ صرف دو مختلف تہذیبوں اور روایات کو جوڑ کر رکھا ہے وہیں یہ ریستوران وہی ذائقے برقرار رکھے ہوئے جو ان کے آباؤ اجداد نے متعارف کروائے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آنے والے بیشتر افراد اب بھی وہی ہیں جو سالہا سال سے ان ذائقوں کے عادی اور اس ماحول کے گرویدہ ہیں۔