وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کو یقین دہائی کرائی ہے کہ اسلام آباد مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو کم کرنے اور امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے یہ بات پاکستان اور ایران کے درمیان اسلام آباد میں جمعے کو وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے دوران کہی۔ پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی ہے جب کہ ایرانی وفد کی قیات ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نےکی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ ایران کشیدگی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں دو طرفہ امور، علاقائی سلامتی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
مذاکرات میں وزیر اعظم عمران کے حالیہ دورہ ایران کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے معاملات پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور دو طرفہ تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خطے میں جاری کشیدگی کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے اور یہ کہ پاکستان تمام تصفیہ طلب معاملات کو بات چیت سے حل کرنے کا حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ تمام فریقین کو تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کے قیام کے لیے اپنی مصالحانہ کوششیں جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا پاکستان اس بات کا خواہاں ہے کہ تمام امور سفارتی سطح پر بات چیت سے حل ہوں اور تمام فریقوں کو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ تہران خطے میں امن کے لیے اسلام آباد کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
قبل ازیں ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر سے بھی ملاقات کی۔
دریں اثنا ایران کی وزیر خارجہ جواد ظریف نے راولپنڈ ی میں واقع فوج کے صدر دفتر میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے جمعے کو ملاقات کی۔ جس میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ‘آئی ایس پی آر’ کے بیان کے مطابق خطے کی صورتحال پرتبادلہ خیال ہوا۔ اس موقع پر جنرل باجوہ نے کہا کہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے اور تمام متعلقہ فریقین کو اسے خطے سے دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف ایک ایسے وقت میں پاکستان کے دورے پر آئے ہیں جب امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ سے خطے کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہے اور سعودی عرب نے عرب ملکوں کی تنظیم ’عرب لیگ‘ کا اجلاس بلا رکھا ہے۔
اگرچہ ایرانی وزیر خارجہ کے دورے کے مقصد کے متعلق اسلام آباد اور تہران کی طرف سے کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی، تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایران مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال کو سفارتی سطح پر حل کرنے کے لیے پاکستان کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان یہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اسلام آباد مشرق وسطیٰ کے تنازع میں فریق نہیں بنے گا اور یہ کہ اگر تنازع میں شدت آئی تو یہ پورے خطے کے مفاد میں نہیں ہو گا۔
امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب صدر ٹرمپ کی حکومت یک طرفہ طور پر اس جوہری معاہدے سے الگ ہو گئی تھی جو 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا۔
معاہدے سے الگ ہونے کے بعد امریکی حکومت نے ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیاں بحال کر دی تھیں جو اس مہینے سے نافذ ہو گئی ہیں۔
امریکہ کی جانب سے اپنا طیارہ بردار جہاز، جنگی طیارے اور میزائل بیٹریاں مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کے اعلان کے بعد خطے کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام خطے میں اپنے مفادات اور اتحادیوں پر ایران کے ممکنہ حملے کے خدشے کے پیشِ نظر اٹھایا ہے۔ لیکن ایران امریکہ کے اس اقدام پر سخت برہم ہے اور دونوں ملکوں کے اعلیٰ قائدین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی جاری ہے۔