واشنگٹن —
باغیوں کی یلغار جس کے باعث عراق کے دو لخت ہونے کا خدشہ ہے، اتوار کو ملک کے جنوب مغرب کی طرف پھیل چکی ہے، ایسے میں جب سنی شدت پسندوں نے علی الصبح شام کی سرحد کے ساتھ ایک قصبے پر چڑھائی کی، جس دوران پولیس اور سرکاری افواج سے ٹاکرا ہوا۔
ایسے میں جب دولت اسلامیہ العراق و الشام اور بحیرہ روم کے دھڑوں پر مشتمل لشکر (آئی ایس آئی ایل) جنوب کی طرف پھیل چکا ہے، اختتام ہفتہ یہ کارروائی کچھ قدر سست روی کا شکار محسوس ہوئی؛ لیکن شام کی سرحد کے قریب موصل کے مغرب میں 60 کلومیٹر کے فاصلے پر طال افار کے قصبے میں شدید جنگ چھڑ گئی۔ یہ بات سلامتی سے متعلق ذرائع اور ایک مقامی اہل کار نے بتائی۔
رائٹرز خبر رساں ادارے نے موصل اور بغداد سے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ آئی ایس آئی ایل کے عسکریت پسند اور دیگر سنی مسلمان مسلح گروہوں نے بغداد کی طرف جانے والی سڑک پر متعدد قصبوں پر دھاوا بول دیا، جس سے تقریباً ہفتہ بھر قبل موصل پر قبضہ کیا گیا تھا، جو کارروائی کچھ رکی سی رہی، جب شیعہ آبادی والا دارالحکومت سامنے تھا۔
پیش قدمی کے باعث، ایران میں وزیراعظم نوری المالکی کے شیعہ حامی اور امریکہ میں اہل کاروں کو سخت تشویش لاحق رہی، جنھوں نے 2003ء کی عراق پر فتح کے بعد، جب سنی آمر صدام حسین کو ہٹایا گیا، جو اُنھیں اقتدار میں لائے۔
امریکی صدر براک اوباما نے جمعے کے روز کہا تھا کہ فوجی آپشنز کا جائزہ لیا جارہا ہے، جن میں فوجیں روانہ کرنا شامل نہیں ہوگا۔ اس کا مقصد بغاوت کا قلع قمع کرنا ہے، اور ایران نے اس امکان کا عندیہ دیا کہ عراق میں سلامتی کو بحال کرنے کے لیے وہ اپنے طویل مدت کے مخالف کے ساتھ مل کر کام کر سکتا ہے۔
مالکی کی سلامتی افواج اور اتحادی ملیشیاؤں نے ہفتے کو کچھ علاقے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے اُن کی شیعہ قیادت والی حکومت پر دباؤ میں کچھ کمی آئی اور اہل کاروں نے کہا ہے کہ وہ اس سعی کو کامیاب ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ مالکی نے باغیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
تاہم، اتوار کے دِن طال افار میں ہونے والی لڑائی سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ فرقہ واریت کی بنا پر تقسیم واضح ہے۔ طال افار میں زیادہ تر ترک نسل کے لوگ مقیم ہیں، جہاں شیعہ اور سنی دونوں آبادیاں بستی ہیں۔
سنی اضلاع میں مقیم لوگوں نے شیعہ پولیس اور افواج پر اُن کے مضافات پر بھاری دہانے سے توپ کے گولے برسانے کا الزام لگایا ہے، جس پر باہر کھڑی ’آئی ایس آئی ایل‘ کی افواج قصبے کے اندر داخل ہوگئیں۔
بقول ایک مقامی عہدے دار، ’طال افار میں صورت حال خطرناک ہے۔ شدید لڑائی کے باعث زیادہ تر خاندان اپنے گھروں کے اندر محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ باہر نہیں نکل سکتے‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اگر یہ جنگ و جدل زیادہ دیر تک جاری رہتی ہے تو اس سے شہریوں کی بڑے پیمانے پر خون خرابے کا خدشہ ہے۔
سرکاری افواج، طال افار کے مضافات میں آئی ایس آئی ایل کے ٹھکانوں پر، گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے حملے کر رہی ہیں۔ یہ بات مالکی کی سکیورٹی کمیٹی کے ایک رکن نے رائٹرز سے گفتگو میں بتائی۔
عینی شاہدین کے مطابق، موصل میں، ایک عراقی جنگی طیارہ آئی ایس آئی ایل کے جنگجوؤں کے طیارہ شکن دستے کا نشانہ بنا۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوپایا آیا وہ آئی ایس آئی ایل کے ٹھکانوں پر حملوں کی تیاری کر رہا تھا یا پھر علاقے کی نگرانی پر مامور تھا۔
ایسے میں جب دولت اسلامیہ العراق و الشام اور بحیرہ روم کے دھڑوں پر مشتمل لشکر (آئی ایس آئی ایل) جنوب کی طرف پھیل چکا ہے، اختتام ہفتہ یہ کارروائی کچھ قدر سست روی کا شکار محسوس ہوئی؛ لیکن شام کی سرحد کے قریب موصل کے مغرب میں 60 کلومیٹر کے فاصلے پر طال افار کے قصبے میں شدید جنگ چھڑ گئی۔ یہ بات سلامتی سے متعلق ذرائع اور ایک مقامی اہل کار نے بتائی۔
رائٹرز خبر رساں ادارے نے موصل اور بغداد سے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ آئی ایس آئی ایل کے عسکریت پسند اور دیگر سنی مسلمان مسلح گروہوں نے بغداد کی طرف جانے والی سڑک پر متعدد قصبوں پر دھاوا بول دیا، جس سے تقریباً ہفتہ بھر قبل موصل پر قبضہ کیا گیا تھا، جو کارروائی کچھ رکی سی رہی، جب شیعہ آبادی والا دارالحکومت سامنے تھا۔
پیش قدمی کے باعث، ایران میں وزیراعظم نوری المالکی کے شیعہ حامی اور امریکہ میں اہل کاروں کو سخت تشویش لاحق رہی، جنھوں نے 2003ء کی عراق پر فتح کے بعد، جب سنی آمر صدام حسین کو ہٹایا گیا، جو اُنھیں اقتدار میں لائے۔
امریکی صدر براک اوباما نے جمعے کے روز کہا تھا کہ فوجی آپشنز کا جائزہ لیا جارہا ہے، جن میں فوجیں روانہ کرنا شامل نہیں ہوگا۔ اس کا مقصد بغاوت کا قلع قمع کرنا ہے، اور ایران نے اس امکان کا عندیہ دیا کہ عراق میں سلامتی کو بحال کرنے کے لیے وہ اپنے طویل مدت کے مخالف کے ساتھ مل کر کام کر سکتا ہے۔
مالکی کی سلامتی افواج اور اتحادی ملیشیاؤں نے ہفتے کو کچھ علاقے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے اُن کی شیعہ قیادت والی حکومت پر دباؤ میں کچھ کمی آئی اور اہل کاروں نے کہا ہے کہ وہ اس سعی کو کامیاب ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ مالکی نے باغیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
تاہم، اتوار کے دِن طال افار میں ہونے والی لڑائی سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ فرقہ واریت کی بنا پر تقسیم واضح ہے۔ طال افار میں زیادہ تر ترک نسل کے لوگ مقیم ہیں، جہاں شیعہ اور سنی دونوں آبادیاں بستی ہیں۔
سنی اضلاع میں مقیم لوگوں نے شیعہ پولیس اور افواج پر اُن کے مضافات پر بھاری دہانے سے توپ کے گولے برسانے کا الزام لگایا ہے، جس پر باہر کھڑی ’آئی ایس آئی ایل‘ کی افواج قصبے کے اندر داخل ہوگئیں۔
بقول ایک مقامی عہدے دار، ’طال افار میں صورت حال خطرناک ہے۔ شدید لڑائی کے باعث زیادہ تر خاندان اپنے گھروں کے اندر محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ باہر نہیں نکل سکتے‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ اگر یہ جنگ و جدل زیادہ دیر تک جاری رہتی ہے تو اس سے شہریوں کی بڑے پیمانے پر خون خرابے کا خدشہ ہے۔
سرکاری افواج، طال افار کے مضافات میں آئی ایس آئی ایل کے ٹھکانوں پر، گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے حملے کر رہی ہیں۔ یہ بات مالکی کی سکیورٹی کمیٹی کے ایک رکن نے رائٹرز سے گفتگو میں بتائی۔
عینی شاہدین کے مطابق، موصل میں، ایک عراقی جنگی طیارہ آئی ایس آئی ایل کے جنگجوؤں کے طیارہ شکن دستے کا نشانہ بنا۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوپایا آیا وہ آئی ایس آئی ایل کے ٹھکانوں پر حملوں کی تیاری کر رہا تھا یا پھر علاقے کی نگرانی پر مامور تھا۔