ترکی نے لیبیا کے شہر بن غازی سے اپنے سفارتی عملے کو عارضی طور پر نکال لیا ہے جب کہ لیبیا کے مشرقی علاقوں میں موجود اپنے شہریوں کو جلد علاقہ چھوڑنے کا کہا ہے۔
ترک وزارت خارجہ کے مطابق یہ فیصلہ بڑھتے ہوئے سلامتی کے خدشات کے باعث کیا گیا۔
ترکی وہ آخری ملک تھا جس نے بن غازی میں اپنی سفارتی موجودگی برقرار رکھی تھی۔ اس ساحلی شہر میں 2012ء میں شدت پسندوں نے امریکی قونصل خانے پر حملہ کیا تھا جس میں امریکی سفیر بھی ہلاک ہوگئے تھے۔
ترک وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ بن غازی میں قونصل خانہ بند کردیا گیا ہے اور اس کے سفارتکار دارالحکومت طرابلس سے اپنا کام جاری رکھیں گے۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ بدھ کو بن غازی سے 50 کلومیٹر دور بارسس نامی علاقے میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر بڑا دھماکا ہوا تھا جو بظاہر ایک خودکش بمبار کی کارروائی تھی۔ اس واقعے میں چھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔
ادھر عراق میں بھی اس ہفتے سنی شدت پسندوں نے شمالی شہر موصل میں ترکی کے قونصل خانے پر قبضہ کر کے قونصل جنرل، اسپیشل فورسز کے اہلکاروں اور بچوں سمیت 49 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس واقعے پر وزارت خارجہ کو اپنا عملہ مناسب وقت پر نہ نکالنے کی بنا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ افراد حال ہی میں عراق میں یرغمال بنائے گئے ترکی کے 80 شہریوں میں شامل ہیں۔ وزیراعظم رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی بازیابی کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔
ترک وزارت خارجہ کے مطابق یہ فیصلہ بڑھتے ہوئے سلامتی کے خدشات کے باعث کیا گیا۔
ترکی وہ آخری ملک تھا جس نے بن غازی میں اپنی سفارتی موجودگی برقرار رکھی تھی۔ اس ساحلی شہر میں 2012ء میں شدت پسندوں نے امریکی قونصل خانے پر حملہ کیا تھا جس میں امریکی سفیر بھی ہلاک ہوگئے تھے۔
ترک وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ بن غازی میں قونصل خانہ بند کردیا گیا ہے اور اس کے سفارتکار دارالحکومت طرابلس سے اپنا کام جاری رکھیں گے۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ بدھ کو بن غازی سے 50 کلومیٹر دور بارسس نامی علاقے میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر بڑا دھماکا ہوا تھا جو بظاہر ایک خودکش بمبار کی کارروائی تھی۔ اس واقعے میں چھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔
ادھر عراق میں بھی اس ہفتے سنی شدت پسندوں نے شمالی شہر موصل میں ترکی کے قونصل خانے پر قبضہ کر کے قونصل جنرل، اسپیشل فورسز کے اہلکاروں اور بچوں سمیت 49 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس واقعے پر وزارت خارجہ کو اپنا عملہ مناسب وقت پر نہ نکالنے کی بنا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ افراد حال ہی میں عراق میں یرغمال بنائے گئے ترکی کے 80 شہریوں میں شامل ہیں۔ وزیراعظم رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی بازیابی کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔