رسائی کے لنکس

کیا عراق میں انتہا پسند طاقت ور ہورہے ہیں؟


کیا عراق میں انتہا پسند طاقت ور ہورہے ہیں؟
کیا عراق میں انتہا پسند طاقت ور ہورہے ہیں؟

عراق سے امریکی جنگی دستوں کی واپسی مکمل ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ عراقیوں میں ملکی صورت حال کے پیش نظر مایوسی پھیل رہی ہے۔ ملک میں پارلیمانی انتخابات کے کئی مہینوں بعد، ابھی تک حکومت تشکیل نہیں دی جا سکی ہے ۔ لوگوں میں مایوسی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ امریکی میڈیا کی کئی رپورٹس کے مطابق ماضی میں امریکی فوج کے ساتھ مل کرکارروائیوں میں حصہ لینے والے تربیت یافتہ مسلح عراقی ،سینکڑوں کی تعداد میں فوج سے الگ ہو رہے ہیں یا شورش پسندوں کے ساتھ مل رہے ہیں ۔تاہم امریکی حکام ایسی رپورٹوں کو مسترد کرچکے ہیں ۔

عراق سے امریکی فوج کے جنگی دستوں کی واپسی کے دو ماہ بعد بھی تشدد کا سلسلہ جاری ہے ۔ واشنگٹن کے ایک ادارے یو نائٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے شان کین کہتے ہیں کہ عراق میں تشدد 2006ءسے کم ہوا ہے ۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات عراقی عوام کو مسلسل خوفزدہ کئے ہوئے ہیں ۔

شان کہتے ہیں کہ عراقی بالکل چاہتے ہیں کہ امریکی فوج ان کے ملک سے نکلے ، لیکن انہیں ڈر ہے کہ امریکی فوج کے جانے کے بعد عراق میں کیا ہوگا ۔ انہیں اپنی فوج اور پولیس پر بھروسہ ہے اور نہ ہی اپنے سیاستدانوں پر ۔

شان کین کے مطابق ایک مسئلہ یہ ہے کہ عراق میں ابھی تک سیاستدان حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ جبکہ عراق میں مارچ کے انتخابات کو سات ماہ مکمل ہو چکے ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ 2006ء کے انتخابات کے مقابلے میں اس بار حالات مختلف ہیں ، کیونکہ بعض عراقیوں کو خدشہ ہے کہ شاید یہ انتخابات عراق کے آخری جمہوری انتخابات ہوں ، اور اگر آپ کچھ دیر کے لئے بھی سوچیں کہ ایسا ہو سکتا ہے تو آپ اس وقت حکومت سے الگ نہیں ہونا چاہتے ، جب امریکہ ملک سے نکل رہا ہے ۔

ملک کے سیاسی نظام پر بد اعتمادی کے علاوہ عراق میں ایک اور خطرے کی خبریں بھی سننے میں آرہی ہیں ۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق القاعدہ عراق میں دوبارہ بھرتیاں کر رہی ہے ، اور امریکی فوج کے ساتھ مل کر لڑنے والے عراقی فوجی اہل کار بھی جنہیں اویکننگ کونسل کے اراکین کہا جاتا ہے، القاعدہ کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں ۔ اویکننگ کونسل کے آدھے سے زیادہ اراکین سابق جنگجو ہیں ، جو امریکی فوج کی جانب سے تنخواہ اور سرکاری نوکریوں کے وعدوں پر القاعدہ کے خلاف ہو گئے تھے ۔ لیکن شان کین کہتے ہیں کہ ان میں سے نصف کے پاس اب ملازمتیں نہیں رہیں۔

جب آپ اس سست رفتاری کا جائزہ لیتے ہیں کہ حکومت سازی کے معاملے پر غیر یقینی صورتحال اور یہ امکان کہ شاید جو حکومت بنے ، وہ 2006ء کی طرح محدود سنی نمائندگی کی حامت ہوگی ، تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان میں سے کچھ اپنے امکانات پر غور کر رہے ہیں ۔

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مائیکل کوربن ان رپورٹس کو مسترد کرتے ہیں کہ کچھ سنی فوجی دوبارہ جنگجووں کے ساتھ مل رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان افواہوں کے باوجود کہ سنی شورش پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں،عسکریت پسندی کے لئے کوئی حمایت موجود نہیں ،کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ اب عراق میں عسکریت پسندی نہیں بلکہ مایوسی ہے ، دہشت گرد گروپ موجود ہیں مگر ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ عراق کی سنی آبادی حکومت یا سیاسی نظام کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو تیار ہو گئی ہے ۔

تاہم کوربن کے مطابق عراقی آبادی کے بعض حصوں کا شدت پسندوں کے ساتھ مل جانے کا خدشہ موجود ضرور ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں انہیں روزگار تو فراہم کرنا ہی ہوگا ، لوگ شدت پسندی کی طرف مائل نہیں ہو رہے ، لیکن اگر انہیں نوکریاں نہ ملیں تو ایسا ہو سکتا ہے ۔

اور ملازمتوں کے علاوہ شان کین کے مطابق عراق میں استحکام کا انحصار وہاں نئی حکومت کے قیام اور شرکت اقتدار کے سوال کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنے میں بھی ہے ۔

XS
SM
MD
LG