عراق کے سرکاری ٹیلی وژن نے فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عثمان الغانمی کے حوالے سے بدھ کو کہا کہ حکومتی فورسز چند دن میں عراق کے مغربی شہر رمادی کا داعش کے قبضے سے چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
اگر رمادی کا قبضہ واپس لے لیا جاتا ہے تو تکریت کے بعد یہ دوسرا عراقی شہر ہو گا جو داعش کے قبضے سے چھڑایا جائے گا۔ یہ کامیابی عراقی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑی نفسیاتی فتح ہو گی جہاں داعش کے شدت پسندوں نے گزشتہ ایک سال سے ملک کے ایک تہائی حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
عراقیہ ٹی وی نے عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ ’’آنے والے دنوں میں ہم رمادی کی مکمل آزادی کی خبر کا اعلان کریں گے۔‘‘
عراق کی مسلح افواج نے منگل کو دریائے فرات کے کنارے واقع رمادی کے آخری وسطی علاقے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی جو داعش کے قبضے میں ہے۔ بغداد سے لگ بھگ 100 کلومیٹر مغرب میں واقع اس شہر پر داعش نے مئی میں قبضہ کر لیا تھا۔
حملہ شروع ہونے سے قبل عراقی انٹیلی جنس کا اندازہ تھا کہ رمادی میں داعش کے محصور شدت پسندوں کی تعداد 250 سے 300 کے درمیان ہے۔
رمادی کی طرف پیش رفت سست رہی ہے مگر شیعہ ملیشیا کو استعمال کرنے کی بجائے حکومت نے اپنی فورسز پر انحصار کیا ہے تاکہ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں سے بچا جا سکے جیسی اپریل میں تکریت کو شدت پسندوں کے قبضے سے چھڑانے کے وقت کی گئیں تھیں۔
داعش عراق کے دوسرے بڑے شہروں موصل اور بغداد اور رمادی کے درمیان واقع فلوجا پر بھی قابض ہے۔ اس کے علاوہ اس نے شام کے بڑے حصوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے جہاں اس نے خود ساختہ خلافت کے قیام کا اعلان کر رکھا ہے۔
فوج کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری ٹیلی وژن نے کہا کہ حکومتی فورسز نے داعش کے قبضے میں رمادی شہر کے وسطی علاقے کا محاصرہ کر لیا ہے اور منگل سے اب تک سینکڑوں شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ انہوں نے حکومتی فورسز کے جانی نقصان کی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
یہ حملہ منگل کی صبح شروع کیا گیا جب فوج کے یونٹ دریائے فرات کو دو پلوں کے ذریعے عبور کر کے شہر کے وسطی علاقوں میں پہنچ گئے۔ فوج کے ترجمان کے مطابق ایک پل فوج کے انجنئیروں نے تعمیر کیا تھا جبکہ دوسرا پل دریا پر تیرنے والا عارضی پل تھا۔
سرکاری ٹیلی وژن نے انبار صوبے کے فوجی کمانڈر میجر جنرل اسمٰعیل شہاب کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوج شہریوں کے جانی نقصان سے بچنے کے لیے محتاط طریقے سے پیش قدمی رہی ہے۔