رسائی کے لنکس

جنرل باجوہ کی حمایت: کیا پرویز الہٰی، عمران خان کے بیانیے کی نفی کر رہے ہیں؟


چوہدری پرویز الہٰی ماضی میں بھی عمران خان کی حکومت کے دوران حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
چوہدری پرویز الہٰی ماضی میں بھی عمران خان کی حکومت کے دوران حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

پنجاب کے وزیرِ اعلٰی چوہدری پرویز الہیٰ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر مسئلے کا حل آرمی چیف کی کاوشوں سے نکلتا ہے، لہذٰا فوج کے خلاف باتیں کرنے والے ملک اور دین کے دُشمن ہیں۔ چوہدری پرویز الہٰی کے اس بیان کو عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے تناظر میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان رواں برس اپریل میں تحریکِ عدم اعتماد کے بعد وزارتِ عظمی سے ہٹنے کے بعد سے ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ حال ہی میں آرمی چیف کی تقرری سے متعلق اُن کے متنازع بیان پر افواجِ پاکستان کی جانب سے سخت ردِعمل ظاہر کیا گیا تھا۔

منگل کو دینی مدرسے جامعہ اشرفیہ لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوب تعریف کی۔

پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اسلام کی خدمت، جمہوریت اور ملکی دفاع کے حوالے سے ان کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں۔ جنرل باجوہ نے ہمیشہ تمام مسالک کے رہنماؤں، دینی مدارس اور تمام مذہبی طبقات کی بھرپور خدمت کی ہے۔

چوہدری پرویز الہٰی نے تحریکِ لبیک پاکستان کے دھرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے دوران آپریشن کا فیصلہ ہوا جس سے ملک میں خانہ جنگی کا خدشہ تھا، لیکن جنرل باجوہ نے آپریشن کے بجائے مفاہمت کے ذریعے مسئلے کے حل پر زور دیا۔ اگر اس وقت جنرل باجوہ کی کوششوں سے مفاہمت نہ ہوتی تو پورے ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔

وزیرِ اعلٰی پنجاب نے 2019 میں مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ دھرنا بھی جنرل باجوہ کی کوششوں سے ختم ہوا۔ اسی طرح جب تبلیغی جماعت پر سعودی عرب نے پابندی لگائی تو جنرل باجوہ نے سعودی فرماں روا کو باور کرایا کہ یہ دین کی خدمت کرنے والے لوگ ہیں جس کے بعدیہ پابندی ہٹا لی گئی۔

اس کے برعکس عمران خان مختلف جلسوں میں فوجی قیادت کا نام لیے بغیر اُنہیں تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم کبھی نیوٹرلز تو کبھی میر جعفر اور میر صادق کی مثالیں دیتے رہے ہیں جس پر اُنہیں تنقید کا سامنا بھی رہتا ہے۔

البتہ اُن کے حالیہ بیان پر پہلے اُن کی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور اب پنجاب کے وزیرِ اعلٰی چوہدری پرویز الہٰی بھی دُوری اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

چوہدری پرویز الہٰی کے آرمی چیف کے حق میں بیان پر ردِعمل کے لیے وائس آف امریکہ نے مسلم لیگ (ق) کے رہنما کامل علی آغا سے رابطہ کیا، تاہم اُنہوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے معذرت کر لی۔

'چوہدری برادران روایتی طور پر فوج کے قریب سمجھے جاتے ہیں'

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق گجرات کے چوہدریوں کی افواجِ پاکستان سے قربت سے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے لے کر اب تک مسلم لیگ(ق) کی قیادت فوج مخالف بیانیے کو رد کرتی رہی ہے۔ لہذٰا اب بھی چوہدری پرویز الہٰی کا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ عمران خان کے اس بیانیے سے متفق نہیں ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پرویز الہٰی روایتی طور پر فوج کے قریب سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی سیاست میں محدود کردار کے باوجود چوہدری خاندان کی پاکستانی سیاست میں اہمیت ملنا فوج کی ہی مرہونِ منت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں بھی چوہدری پرویز الہٰی ڈپٹی وزیرِ اعظم بنے جب کہ اب پنجاب اسمبلی میں محض 10 نشستوں کے باوجود اُنہیں وزیرِ اعلٰی پنجاب بنایا گیا ہے۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی نے اپنے اس بیان سے واضح کر دیا ہے کہ وہ عمران خان کی وجہ سے ہی پنجاب کے وزیرِ اعلٰی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ فوج کے ساتھ اپنا ناطہ توڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اُن کے بقول چوہدری پرویز الہٰی نے اس بیان سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ عمران خان کے فوج مخالف بیانیے سے متفق نہیں ہیں۔

'عمران خان کے قریبی حلقے فوج مخالف بیانیے پر تحفظات رکھتے ہیں'

سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عمران خان کے فوج مخالف بیانیے سے اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے قریبی حلقے اس جارحانہ پالیسی پر تحفظات بھی رکھتے ہیں۔ صدر عارف علوی اور اب چوہدری پرویز الہٰی کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان کے اس بیانیے کا ساتھ دینے والوں کی تعداد کم ہے۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کو یہ معلوم ہے کہ اُن کی سیاسی بقا فوج کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے میں ہی ہے۔

اُن کے بقول چوہدری پرویز الہٰی نے ایک لحاظ سے عمران خان کے بیان کی نفی کی ہے جسے عمران خان نے نوٹ ضرور کیا ہو گا، لہذٰا آنے والے دنوں میں پتا چل جائے گا کہ عمران خان کا اس پر کیا ردِعمل ہوتا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ جب عمران خان کے سیاسی مشیر شہباز گِل نے فوج کے بارے میں بیان دیا تھا تو پرویز الٰہی نے شدید مذمت کی تھی۔ پرویز الٰہی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جو فوج کے ساتھ نہیں وہ اُن کے ساتھ بھی نہیں۔

احمد ولید کہتے ہیں کہ عمران خان کے بیان پر فوج کی جانب سے جاری کیے ردِعمل میں غصے کا اظہار کیا گیا۔ لیکن بجائے اس کے اس معاملے کو رفع دفع کیا جاتا۔ عمران خان کے قریبی رفقا فواد چوہدری اور شیریں مزاری نے اپنی ٹوئٹس میں آئی ایس پی آر کے بیان کو غیر ضروری قرار دے دیا۔

احمد ولید سمجھتے ہیں کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ پرویز الٰہی کے بیان پر عمران خان کا کوئی ردِ عمل آئے گا۔

اُن کے بقول صوبے میں حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ (ق) کی ان 10 نشستوں کی بہت اہمیت ہے۔ جب چوہدری پرویز الہٰی اسپیکر پنجاب اسمبلی تھے تو اس وقت بھی وہ اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے تھے اور عمران خان کی حکومت پر بھی تنقید کرتے تھے۔

اُن کے بقول اگر تحریکِ انصاف کا کوئی رہنما ایسا بیان دیتا تو پھر عمران خان ضرور ردِعمل دیتے اور اس سے باز پرس کرتے، لیکن چوہدری پرویز الہٰی ایک سینئر سیاست دان ہیں اور صوبے میں تحریکِ انصاف کے اہم اتحادی ہیں۔

احمد ولید کہتے ہیں کہ عمران خان نے صدر عارف علوی سے ضرور وضاحت طلب کی ہو گی، کیوں کہ وہ اُن کی اپنی جماعت کے سینئر رہنما بھی ہیں۔ لیکن چوہدری پرویز الہٰی کا معاملہ اور ہے۔

اُن کے بقول چوہدری پرویز الہٰی عمران خان کے احکامات پر من و عن عمل نہیں کرتے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کے 25 مئی کو تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کے دوران پولیس تشدد پر چند پولیس افسران کے تبادلوں کے علاوہ کسی کو زیادہ سزائیں نہیں دی گئیں۔ کیوں کہ پرویز الہٰی بیورو کریسی کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک رکھنا چاہتے ہیں۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان ان دنوں مقبولیت کی جس بلندی پر ہیں، ان کی اپنی جماعت یا اتحادیوں کے لیے اُن کے مؤقف کی نفی کرنا مشکل ہے۔ لیکن چوہدری پرویز الہٰی زیرک سیاست دان ہیں اور دونوں طرف بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں چند روز سے یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں کہ پنجاب حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے آصف زرداری پھر سرگرم ہو گئے ہیں۔یہ خبریں بھی گرم تھیں کہ مسلم لیگ (ق) کے اراکینِ پنجاب اسمبلی جنہیں پنجاب کابینہ میں حصہ نہیں ملا وہ دوبارہ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے رابطے کر رہے ہیں۔ تاہم مصدقہ ذرائع سے ان خبروں کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی طرح کی سیاسی تبدیلی صرف فوج کی آشیرباد سے ہی آ سکتی ہے۔ لہذٰا چوہدری پرویز الہٰی اپنے بیانات کے ذریعے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ فوجی قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں اور عمران خان کے بیانیے سے اتفاق نہیں کرتے۔

XS
SM
MD
LG