رسائی کے لنکس

کیا صدر عارف علوی اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں؟


فائل فوَٹو
فائل فوَٹو

صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ملک میں نیا آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں صدر کے اقدام کے بعد اب یہ معاملہ سپریم کورٹ جا سکتا ہے۔

صدارتی آفس سے پیر کو جاری ایک اعلامیے میں صدر علوی نے کہا تھا کہ صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد آئین و قانون کے تحت الیکشن کمیشن 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے لیکن دونوں صوبوں کے گورنرز اور الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نہ کر کے آئینی ذمے داری ادا نہیں کر رہے۔

پیر کو صدر نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نو اپریل کو انتخابات کرانے کی تاریخ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کودونوں صوبوں میں انتخابات کا پروگرام جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔

تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدرِ مملکت اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔

سابق وزیرِ قانون اور آئینی ماہر ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں "آئین میں لکھا ہے کہ انتخابات نوے روز میں ہوں گے لیکن اِس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ اتنخابات کی تاریخ کا اعلان گورنر کرے گا یا صدر۔

اُن کے بقول یہ وہ معاملات ہیں جن پر ہر کسی نے اپنے اپنے بہانے بنائے ہوئے ہیں تا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی موجودہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئينی تقاضوں کے تحت انتخابات کرانے کے مُعاملے پر گورنرز اپنے مؤقف ميں غلط ہيں اور صدر مملکت نے بھی اپنے آئينی اختيار سے تجاوز کيا ہے۔

ان کے بقول، مزيد آئينی بُحران سے بچنے کے لیے وفاقی حکومت سپریم کورٹ کی ایڈوائزری جورسڈکشن میں رائے طلب کرے جسے تمام جج صاحبان سن کر جواب دیں۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق آئین کا آرٹیکل 105 کہتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے، تاریخ متعین کرنے اور دیگر تمام اختیارات گورنر کے پاس ہیں۔ البتہ قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو صدرِ مملکت قومی اسمبلی کے انتخابات کرانے اور تاریخ دینے سے متعلق الیکشن کمیشن سے مشاورت کے مجاز ہیں۔

ان کے بقول، بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئینی و قانونی طور پر صدر عارف علوی اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔
صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ دینے سے قبل چیف الیکشن کمشنر کو پیر کو مشاورت کے لیے ایوانِ صدر مدعو کیا تھا۔ تاہم الیکشن کمیشن نے ایوانِ صدر آنے سے معذوری ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ دونوں صوبوں میں انتخابات سے متعلق معاملات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کنور دلشاد نے کہا کہ صدرِ مملکت کا الیکش کمیشن کو بار بار خط لکھنا اور بقول الیکشن کمیشن کے دباؤ ڈالنا درست نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تحریری طور پر صدرِ مملکت سے انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے معذوری ظاہر کی ہے اس لیے اِن حالات پر الیکشن کمیشن سے کسی بھی قسم کی مشاورت درست نہیں سمجھی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ نوے روز میں انتخابات ہونے چاہئیں لیکن آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ملک میں کوئی ایسی صورتِ حال پیدا ہو جائے جس میں انتخابات کرانا ممکن نہ ہو تو اِن حالات میں آرٹیکل 254 واضح ہے کہ اگر کسی وجہ سے آئین کے کسی آرٹیکل پر عمل درآمد مشکل ہو تو وہ آئین کی خلاف ورزی نہیں۔ جس پر کچھ عرصے بعد عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔

کنور دلشاد کے خیال میں موجودہ حالات میں پارلیمنٹ کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے اور آئینی اعتبار سے طاقت کا سرچشمہ ہے۔ ان کے بقول، انتخابات کی تاریخ دینے سے متعلق الیکشن کمیشن کو پابند کرنے کے لیے قومی اسمبلی قانون سازی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ایوان کو ہر قسم کی قانون سازی کا اختیار ہے اور وہ آرٹیکل 105 میں ترمیم کر سکتا ہے۔

آئینی و قانونی ماہر اور سینئر وکیل حامد خان کہتے ہیں کہ بطور ریاستی سربراہ صدر کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آئین پر عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں اور وہ اِس حد تک حکم دے سکتے ہیں جو آئین میں لکھا ہے۔ البتہ صدر عارف علوی سے متعلق کچھ لوگوں نے یہ تاثر بنایا ہوا ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے لیے جذبات رکھتے ہیں۔ جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن وہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے بطور ریاستی سربراہ کسی بھی ادارے سے مشاورت کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG