پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی سے ملاقاتوں کے بعد یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ آیا پی ٹی آئی اب مذاکرات کے لیے تیار ہے؟
پہلی ملاقات میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن اور بیرسٹر عمیر نے صدر عارف علوی سے ایوان صدر میں جب کہ مرتضٰی سولنگی نے پی ٹی آئی کے رہنما شفقت محمود سے لاہور میں ملاقات کی۔
خیال رہے کہ ماضی میں صدر عارف علوی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کرانے اور تعلقات بحال کرانے کی متعدد کوششیں کر چکے ہیں، جو تمام بے سود ثابت ہوئی تھیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کی خواہش پر شفقت محمود نے اُن سے ملاقات کی۔ ملاقات میں ملک میں شفاف انتخابات اور وسیع قومی مفاہمت سمیت باہمی دلچسپی کے اُمور پر بات ہوئی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف آئین کے سائے میں انتخابات کے صاف شفاف انعقاد کے لیے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔
'سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت جاری رہنے چاہیے'
رہنما تحریکِ انصاف شفقت محمود کہتے ہیں کہ بنیادی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ڈائیلاگ ہونا چاہیے کیوں کہ اس کے بغیر جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کا شفاف انعقاد بھی بے حد ضروری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو آئندہ 10 سے 15 سال کے لیے پاکستان کے معاشی، سیاسی اور دیگر مسائل کے حل پر سوچ بچار کرنی چاہیے۔
شفقت محمود کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی چارٹر ہونا چاہیے جن میں 'چارٹر آف اکانومی' بھی شامل ہے۔
'پی ٹی آئی کے پاس مذاکرات کا ہی راستہ ہے'
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما چوہدری منظور احمد سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس راستہ ہی سیاسی مذاکرات (سیاسی ڈائیلاگ) کا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کا شروع دن سے ہی یہ مؤقف ہے کہ سیاسی مسائل کو سیاسی لوگ ہی حل کریں تو بہتر ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر اب پی ٹی آئی مذاکرات کی بات کرتی ہے تو وہ دباؤ میں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر دباؤ میں مذاکرات ہونے ہیں تو اُس کا نتیجہ کچھ خاص نہیں ہو گا اِس لیے بہتر یہ ہے کہ بات چیت تو ہونی چاہیے کیوں کہ جنگوں کے دوران بھی بات چیت کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔
ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے چوہدری منظور احمد کا کہنا تھا کہ اِس سے قبل بھی پی پی پی نے سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت شروع کرائی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے منگل کو لاہور میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز کے چارٹر آف اکانومی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں چارٹر آف اکانومی کے ساتھ چارٹر آف پاکستان بھی ہونا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کوئی بھی حکومت آئے، پالیسیاں تبدیل نہیں ہونی چاہئیں اور پالیسیوں میں ایک تسلسل ہونا چاہیے۔
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بات چیت کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے بہت ضروری ہے خاص طور پر ایک ایسی سیاسی جماعت کے لیے مذاکرات کرنا ضروری ہے جو دباؤ میں ہے۔
کیا صدر عارف علوی مذاکرات کے لیے راہ ہموار کر سکتے ہیں؟
پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری منظور احمد سمجھتے ہیں کہ اِس بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کہ صدر ڈاکتر عارف علوی مذاکرات کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
چوہدری منظور کے بقول اُنہیں نہیں لگتا کہ ڈاکٹر عارف علوی پر دیگر سیاسی جماعتیں اعتماد کرتی ہیں، لہذٰا بہتر یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں خود بات چیت کو آگے بڑھائیں۔
رہنما تحریکِ انصاف شفقت محمود کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ماضی میں بھی چارٹرز ہو چکے ہیں۔ لہذٰا انہیں دوبارہ متحرک ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ سن 2006 میں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔
چوہدری منظور کہتے ہیں کہ دیگر جماعتوں سے مذاکرات کا مینڈیٹ پارٹی نے آصف زرداری کو دے دیا ہے۔
چوہدری منظور کہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات متنازع تھے، لہذٰا پیپلزپارٹی نہیں چاہتی کہ آئندہ انتخابات بھی متنازع ہوں۔ اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہو گا۔
کیا پی ٹی آئی کے رہنما بااختیار ہیں؟
احمد بلال محبوب سمھتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے رہنما اپنے طور پر مذاکرات کریں گے یا اُنہیں عمران خان کی بھی حمایت حاصل ہو گی؟
خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرتے رہے ہیں۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف میں فیصلہ سازی کا اختیار صرف عمران خان کے پاس ہی ہے۔ اُن کے بقول اگر پی ٹی آئی رہنما سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ عین موقع پر عمران خان اسے مسترد کر دیں۔
احمد بلال محبوب کے بقول چونکہ عمران خان صاحب کا مزاج ایسا ہے کسی بھی سیاسی جماعت کا اُن کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہونا بہت مشکل کام ہو گا۔
کیا پی ٹی آئی پر مذاکرات کا کوئی دباؤ ہے؟
پی ٹی آئی کے رہنما شفقت محمود کے بقول وہ ذاتی طور پر بات چیت کے حق میں رہے ہیں اور بات چیت کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
احمد بلال محبوب کے بقول ماضی میں پی ٹی آئی ہوا کے گھڑے پر سوار تھی۔
اُن کا خیال تھا کہ وہ اکیلے ہی کسی بھی کام کے لیے کافی ہیں۔ وہ جیت جائیں گے اور اُنہیں کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
فورم