رسائی کے لنکس

سماعت، اعلیٰ فوجی اہل کاروں کو تلخ سوالات کا سامنا


کارٹر نے یہ بات تسلیم کی کہ دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں سے لڑائی میں مقامی افواج کے تربیت کے مشن کو تقویت دینے کے لیے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے، جب کہ ڈیمپسی نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں دیرپہ استحکام بیرونی طریقوں سے مسلط نہیں کیا جاسکتا

امریکی صدر براک اوباما کے چوٹی کے فوجی اہل کاروں نے منگل کے روز قانون سازوں کے روبرو داعش کے شدت پسند گروہ سے لڑائی کی حکمت عملی پر ہونے والی گفت و شنید کے بارے میں شہادت دی، جس ضمن میں ایک ہی دِن قبل صدر اوباما نے بتایا تھا کہ یہ طویل مدتی اور دقت طلب کام ہے، جس لڑائی کو جیتنے کے لیے مزید امریکی فوجی طاقت درکار ہوگی۔

سینیٹ میں مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کی یہ سماعت منگل کی صبح ہوئی، جس میں وزیر دفاع ایشٹن کارٹر اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیرمین، جنرل مارٹن ڈیمپسی کو قانون سازوں کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ گذشتہ ماہ ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے مسلح افواج کے روبرو ایسی ہی سماعت میں پیش ہو چکے ہیں۔

کانگریس کی سماعت کی ابتدا ہی میں، کمیٹی کے سربراہ، جان مک کین نے کہا کہ یہ گمان کرنے کی کوئی وزنی وجہ موجود نہیں کہ جو کوششیں امریکہ کر رہا ہے اس سے دولت اسلامیہ کے گروہ کو کمزور اور بالآخر تباہ کرنے کا اوباما کا ہدف حاصل ہوگا۔ مک کین داعش کے شدت پسندوں کے خلاف صدر کی حکمت عملی کے سرکردہ ناقد سمجھتے جاتے ہیں۔

صدر کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے، کارٹر نے یہ بات تسلیم کی کہ دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں سے نبردآزما ہونے کے لیے مقامی افواج کے تربیت کے مشن کو تقویت دینے کے لیے زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

زمینی صورت حال کے بارے میں، کارٹر نے بتایا کہ ’عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کو شکست دینے کی بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ باصلاحیت اور متحرک افواج کی حمایت جاری رکھی جائے‘۔

اُنھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شناخت کیے گئے نو چیدہ چیدہ نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا، جس کا مقصد اس شدت پسند گروپ کو کمزور اور آخرکار تباہ کرنا ہے، جس میں سیاسی اور فوجی کوششوں کے علادہ انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی شامل ہے۔

ڈیمپسی نے اپنی اُسی بات پر زور دیا جو اُنھوں نے ایوان نمائندگان کے سامنے ایک ماہ قبل پیش کی تھی۔ اُنھوں نے شدت پسندوں سے لڑنے کے حوالے سے مقامی لڑاکوں کی شرکت اور خطے کے یکساں مفاد رکھنے والے ملکوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں دیرپہ استحکام بیرونی طریقوں سے مسلط نہیں کیا جاسکتا۔

پیر کے روز صدر اوباما نے پینٹاگان میں کارٹر، چوٹی کے فوجی کمانڈروں اور انٹیلی جنس اہل کاروں سے ملاقات کی تھی، جہاں اُنھوں نے امریکہ کو ایک اور لڑائی میں جھونکے بغیر، دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کو شکست دینے کا عہد کیا۔

صدر نے کہا کہ اس کے فوری نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ یہ ایک طویل مدتی کارروائی ہے۔ شدت پسندوں کے مکمل خاتمے میں وقت لگے گا، اور ایسا کرنا زمین پر موجود مقامی افواج کا کام ہوگا، جسے ہمارے اتحاد کی تربیت اور فضائی حمایت حاصل رہے گی۔

امریکی صدر نے کہا کہ اس دوران، پیش قدمی کے لمحات آئیں گے، لیکن ساتھ ہی کچھ رکاوٹیں بھی ہوں گی۔

اُنھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ شدت پسندوں سے لڑنے کے سلسلے میں امریکہ کے پاس ابھی تک ’پوری حکمت عملی’ موجود نہیں تھی۔

XS
SM
MD
LG