رسائی کے لنکس

نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل، فیصلہ رواں ہفتے سنائے جانے کا امکان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد کے پوش سیکٹر میں قتل ہونے والی نور مقدم کی موت کے مقدمے کا ٹرائل مکمل ہو گیا ہے اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ کیس کا فیصلہ 24 فروری کو سنائے جانے کا امکان ہے۔

سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحب زادی نور مقدم کو گزشتہ برس جولائی میں عیدالضحیٰ کی رات قتل کیا گیا تھا اور موقع سے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کیس کا ٹرائل چار ماہ کے عرصے میں مکمل ہوا جس میں پراسیکیوشن کے 19 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو 24 فروری کو سنائے جانے کا امکان ہے۔جج عطا ربانی نے منگل کو حتمی دلائل مکمل اور وکلا کے جواب الجواب کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

’کیس کو مثالی بنایا جائے‘

اس کیس میں مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ کے اسسٹنٹ نثار اصغر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے وکیل کے دلائل تھے کہ ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کی حد تک تفتیشی افسر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں البتہ وہ خود مانتے ہیں وہ کراچی سے آئے۔ تین دفعہ تھانے گئے۔ پولیس کو لائسنس دیا اور پھر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔

دلائل میں نثار اصغر کا مزید کہنا تھا کہ تفتیشی افسر عبد الستار کہتے ہیں نو بج کر 45 منٹ سے 10 بجے کے درمیان قتل کی اطلاع ملی تھی۔ تھراپی ورکس کے ملازمین تو جائے وقوع پر موجود تھے۔ انہوں نے ہی تھراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹو طاہر ظہور کو قتل کا بتایا تھا۔جائے وقوع سے تھانہ صرف ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا۔ اگر قانونی کارروائی تھانے میں بیٹھ کر کی گئی ہے تو ایف آئی آر میں تحریریں مختلف نہیں ہونی چاہیے تھیں۔

انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی میں ظاہر جعفر زبردستی مقتولہ نور مقدم کو کمرے میں لے کر جاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے ویڈیو فوٹیج کے حوالے سے کہا کہ دو بج کر 46 منٹ پر مقتولہ نور مقدم اور ظاہر جعفر دوبارہ باہر جاتے ہیں اور دو بج 52 منٹ پر واپس آتے ہیں۔ دو بج کر 41 منٹ پر پہلی مقتولہ نور مقدم پہلی بار باہر نکلی تھیں البتہ چوکیدار نے دروازہ بند کیا ہوا تھا۔ 20 جولائی کو صبح سات بج کر 12 منٹ پر مقتولہ نورمقدم نے پہلی منزل سے چھلانگ لگائی تھی۔

اپنے حتمی دلائل میں پولیس کی جانب سے پیش ہونے والے سرکاری وکیل رانا حسن عباس ایڈووکیٹ نے کہا کہ جائے وقوع سے ملزم آلۂ قتل کے ساتھ گرفتار ہوا تھا۔ ملزم کی شرٹ خون آلود تھی اس کے بعد کوئی شک رہ ہی نہیں جاتا۔

اپنے دلائل کے اختتام پران کا کہنا تھا کہ اس کیس کو ملک کا بچہ بچہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کا نظامِ انصاف کیسے چل رہا،

انہوں نے عدالت سے کہا کہ اس کیس کو مثالی بنائے اور ملزمان کو زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔

’یہ ثابت نہیں کیا جا سکا کہ ملزم کے والدین کو قتل کا علم تھا‘

مرکزی ملزم کی والدہ اور شریک ملزم عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ میری مؤکلہ کے خلاف کال ریکارڈ ڈیٹا کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے جب کہ سپریم کورٹ ٹرانسکرپٹ کے بغیر کال ڈیٹا ریکارڈ کے متعلق فیصلے دے چکے ہے۔

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن یہ ثابت نہیں کر سکی کہ ملزم کے والدین کو قتل کے بارے علم تھا۔ تفتیشی افسرنے کال ریکارڈ ڈیٹا ایس پی آفس سے حاصل کیا۔ کال کا ڈیٹا سیلولر کمپنی سے حاصل کیا جانا تھا جو کہ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کال ریکارڈ ڈیٹا تھرڈ پارٹی نے دیا ہے اس پر فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟

’پراسیکیوشن ایک گواہ نہیں لائے جو بتا سکے کہ انہوں نے قتل ہوتے ہوئے دیکھا‘

مرکزی ملزم کے والد اور شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ ایڈووکیٹ نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ پراسیکیوشن نے کہا کہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے جب کہ عدالت کے سامنے تو تمام کیسز ہی اہم ہوتے ہیں۔

انہوں نے تفتیش پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئی جی کی سربراہی میں تفتیش ہوتی رہی۔ تفتیش سے متعلق کہاں جا کر شکایت کرتے پوری ریاست تو ایک اس کیس کے پیچھے لگی ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید پریس کانفرنس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں جو کچھ کر سکتا تھا میں نے کیا۔ ظاہر جعفر کو پولیس کی حراست میں گولی تو نہیں مار سکتا۔

ذاکر جعفر کے وکیل نے اپنے جواب الجواب کے اختتام پر کہا کہ پراسیکیوشن ایک گواہ نہیں لائے جو بتا سکے کہ انہوں نے قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔

بشارت اللہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ کیس کا چشم دید گواہ ہی موجود نہیں۔اس لیے ان کے موکل کو بری کیا جائے۔

’ آلۂ قتل پر ظاہرجعفر کے فنگر پرنٹس کیوں نہیں ہیں؟‘

مرکزی ملزم کے وکیل شہریار نواز نے جواب الجواب میں کہا کہ پروسیکیوشن نے کہا کہ ہر چیز پر ظاہرجعفر کے فنگر پرنٹس ہیں۔ پروسیکیوشن اب تک جواب نہیں دے پائی کہ آلۂ قتل پر ظاہرجعفر کے فنگر پرنٹس کیوں نہیں ہیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے کیس میں تمام کارروائی مکمل ہونے کے بعد اس کا فیصلہ محفوظ کیا ۔

مقتولہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ کیس کی اب تک کی کارروائی اور پولیس کی طرف سے کی جانے والی تفتیش سے مطمئن ہیں۔

نورمقدم کیس

گزشتہ برس 20 جولائی کی شب اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف-سیون کے ایک گھر میں لاش ملنے کی اطلاع پر پولیس موقع پر پہنچی تھی۔

بعد ازاں پولیس نے تصدیق کی کہ سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحب زادی نور مقدم کو بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا تھا اور ان کی سربریدہ لاش وہاں پڑی ہوئی تھی۔

پولیس نے موقع سے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کیا اور اسے تھانے منتقل کیا۔

اس کیس کے حوالے سے سول سوسائٹی نے بھرپور احتجاج کیا اور ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اس کیس کے حوالے سے پولیس کو جلد کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

XS
SM
MD
LG