رسائی کے لنکس

'انصار الاسلام پر پابندی کا نوٹی فکیشن بظاہر غیر موثر'


وفاقی حکومت نے تین روز قبل جمعیت علماء اسلام کی ذیلی تنظیم پر پابندی کا اعلامیہ جاری کیا تھا — فائل فوٹو
وفاقی حکومت نے تین روز قبل جمعیت علماء اسلام کی ذیلی تنظیم پر پابندی کا اعلامیہ جاری کیا تھا — فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی وزارت داخلہ نے انہیں سنے بغیر لگائی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وزارت داخلہ کسی کا موقف سنے بغیر ہی انہیں کالعدم قرار دے دے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی کا نوٹی فکیشن بظاہر غیر موثر ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران جے یو آئی کے وکیل اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضی نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے جبکہ انصار الاسلام نجی ملیشیا نہیں بلکہ ہماری تنظیم جمعیت علماء اسلام کا حصہ ہے۔ یہ تنظیم قائد اعظم کے دور سے کام کر رہی ہے۔

وزارت داخلہ نے 24 اکتوبر کو انصار الاسلام پر پابندی عائد کر دی تھی اور صوبوں کو تنظیم کے خلاف نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

وزارت داخلہ کے نوٹی فکیشن کے مطابق جمعیت علماء اسلام (ف) کی انصار الاسلام نامی تنظیم قانون کی خلاف ورزی کا سبب بن سکتی ہے۔ نجی مسلح گروہ کا قیام آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر انصار الاسلام کے کارکن سیاسی جماعت کے رکن ہیں تو پھر اس پر پابندی کا نوٹی فکیشن ہی غیر موثر ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ یہ نجی ملیشیا نہیں لیکن اس کے پاس ڈنڈے تو ہیں۔ جس پر وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ لگے ہوتے ہیں۔

جے یو آئی کے وکیل سے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کا موقف سنا ہے؟ جس پر کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ نے ہمیں سنے بغیر پابندی لگا دی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب تنظیم کا باقاعدہ وجود ہی نہیں تو اس پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے۔ کم از کم حکومت آپ سے پوچھ تو لیتی کہ یہ تنظیم کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 24 اکتوبر کو وزارتِ داخلہ نے انصار الاسلام پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک چیز موجود ہی نہیں اور اس پر پابندی لگا دی گئی۔

اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ میری رائے کے مطابق تو یہ نوٹی فکیشن ہی غیر موثر ہے۔ انصار الاسلام کے کارکن خاکی وردی کی بجائے سفید پہن لیں تو پھر کیا ہوگا۔

عدالت نے وزارت داخلہ کے افسر کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک دن کے لیے ملتوی کر دی۔

انصار الاسلام ہے کیا؟

جمعیت علماء اسلام کے مطابق جے یو آئی (ف) کے آئین میں انصار الاسلام کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ ہے جس کا کام فقط انتظام و انصرام کی ذمہ داریاں نبھانا ہے۔

یہ جے یو آئی کے ماتحت ہے اور اس کی نگرانی میں کام کرتی ہے۔

ان کا بنیادی کام جمعیت علماء اسلام کے جلسے جلوسوں اور کانفرنسز میں سیکیورٹی کے فرائض انجام دینا ہوتا ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے آئین کی شق نمبر 26 کے مطابق، ہر مسلمان جو نماز اور روزے کا پابند ہو وہ انصار الاسلام کا رکن بن سکتا ہے۔

ان رضاکاروں کی وردی کا رنگ خاکی ہوتا ہے جب کہ کالے رنگ کے بند جوتے پہنے ان نوجوانوں کو ایک بیج بھی دیا جاتا ہے جس پر ان کا عہدہ اور حلقہ نمبر درج ہوتا ہے۔

جے یو آئی کے مطابق یہ تنظیم برسوں پہلے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھنے کے دوران ہی عمل میں آئی تھی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں یہ جے یو آئی کی ذیلی تنظیم کے طور پر باقاعدہ رجسٹر بھی ہے۔

حکومت کا موقف

وزیر اعظم پاکستان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں نجی ملیشیا بنانے کی گنجائش نہیں۔

ان کے بقول ریاست کے اندر ریاست بنانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ یہ پابندی کسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ انتہاپسندی کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتیں ایسے جتھوں سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی طے کر چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG