پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور میں گزشتہ ہفتے ایک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک کے کئی دیگر علاقوں کی طرح وفاقی دارالحکومت میں بھی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے ترجمان محمد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک ہفتے کے دوران دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شبے میں لگ بھگ 300 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ ان افراد میں افغان شہری بھی شامل ہیں تاہم اس بارے میں پولیس ترجمان نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
اسلام آباد کے بعض علاقوں میں اب بھی خفیہ معلومات کی بنیاد پر سرچ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ حکام نے مشتبہ افراد کو ترنول، بارہ کہو، شہزاد ٹاؤن، سہالہ اور سبزی منڈی کے علاقوں سے حراست میں لیا۔
حراست میں لیے گئے افراد سے تفتیش جاری ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ایک طویل اجلاس کے بعد بدھ کو نصف شب کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے تنگ ہو چکی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی، جن کی مدت دو سال ہو گی۔
’’ہمارے بچوں کو نشانہ بنا کر ہمارے مستقبل پر حملے کرنے والوں کے لیے یہاں کوئی جائے پناہ نہیں، پاکستان کی سر زمین تمہارے لیے تنگ ہو چکی ہے۔ تم نے ہمارے معصوم بچوں کا لہو بہا کر پاکستانی قوم کو جو درد دیا ہے اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ہمارے معصوم بچوں نے اپنے پاکیزہ لہو سے ایک لکیر کھینچ دی ہے جس کے ایک طرف بزدل دہشت گرد اور دوسرے طرف پاکستانی قوم کھڑی ہے‘‘۔
پیپلز پارٹی کے ایک مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ فوجی عدالتوں میں صرف سخت گیر دہشت گردوں کے خلاف ہی مقدمات چلائے جائیں گے۔
’’تمام جماعتیں اس پر متفق ہوئی ہیں کہ (فوجی عدالتوں) کو ایک ٹائم لائن کے ساتھ ایک محدود وقت کے لیے اور صرف دہشت گردی کے سخت گیر مجرموں یا انتہا پسندوں جو معاشرے میں نفرتیں پھیلانے والے ہیں ان کے خلاف اس کو سختی سے استعمال کیا جائے گا، اس کا کسی طرح بھی سیاسی یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال اس کو نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘۔
حزب اختلاف کی ایک اور جماعت تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے۔
’’دہشت گردی کی لعنت کا ہم نے مل کر مقابلہ کرنا ہے اور اس کو شکست دینی ہے اور ایک قومی عزم ہے جس کا ایک بڑا واضح پیغام دیا گیا ہے۔ ان قوتوں کو جنہوں نے پاکستان کے امن کو برباد کیا ہے، جنہوں نے ہمارے معصوم بچوں کا خون کیا ہے اور جو ہماری افواج پر اور ہمارے نہتے شہریوں پر کاری ضرب پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے وہ لگاتے آ رہے ہیں۔‘‘
سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ دہشت گردی کی فکر اور سوچ کا بھی خاتمہ کیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ نفرتیں ابھارنے، گردنیں کاٹنے، انتہا پسندی و فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر، اخبارات اور رسائل کے خلاف موثر و بھرپور کارروائی کی جائے گی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ بعض دینی مدارس کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پشاور میں اسکول پر حملے میں بچوں کی ہلاکت پر پورے ملک میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ملک کی تاریخ میں دہشت گردی کے اس مہلک حملے کے بعد عمومی طور پر شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے مطالبات سامنے آئے۔