رسائی کے لنکس

صدر اور وزیراعظم کا دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی پر اتفاق


مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں قید چار سو کے لگ بھگ مجرموں کو دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت سنائی جا چکی ہے جن کی سزاؤں پر ایک ہفتے میں عملدرآمد شروع ہونے کی توقع ہے۔

پاکستان کے صدر اور وزیراعظم نے ایک بار پھر ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام خاص طور پر بچوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

وزیراعظم نوازشریف نے جمعرات کو صدر ممنون حسین سے ملاقات کی اور انھیں پشاور میں ملکی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ واقعے کی تفصیلات، کل جماعتی کانفرنس اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی سے متعلق مشاورت بارے آگاہ کیا۔

منگل کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں 132 بچوں سمیت 148 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

صدر اور وزیراعظم نے دہشت گردوں کو شکست فاش دینے کے لیے ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے پر اتفاق کیا۔

پاکستان ایک دہائی سے زائد عرصے سے شدت و انتہا پسندی کے خلاف نبرد آزما ہے جب کہ رواں سال کے وسط سے فوج نے شدت پسندوں کے خلاف قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں بھرپور کارروائی بھی شروع کر رکھی ہے۔

حملے کا نشانہ بننے والا اسکول
حملے کا نشانہ بننے والا اسکول

انسداد دہشت گردی کی جنگ سے متعلق پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی رائے خاصی منقسم رہی ہے لیکن پشاور میں پیش آنے والے واقعے کے بعد تقریباً سب ہی طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے حکومت سے مطالبے میں شدت آئی ہے۔

ایک روز قبل ہی وزیراعظم نے ملک میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد پر تقریباً چھ سال سے عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کے جرم میں اس سزا کے مرتکب قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں قید چار سو کے لگ بھگ مجرموں کو دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت سنائی جاچکی ہے جن کی سزاؤں پر ایک ہفتے میں عملدرآمد شروع ہونے کی توقع ہے۔

پہلے مرحلے میں اطلاعات کے مطابق کم ازکم ان 17 مجرموں کی سزا پر عملدرآمد کیا جائے گا جن کی رحم کی اپیل صدر ممنون حسین نے نامنظور کر دی ہے۔

پاکستان میں 2008ء کے بعد سے سزائے موت پر عملدرآمد پر پابندی چلی آرہی تھی اور گزشتہ روز وزیراعظم کی طرف سے اس پابندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں نے اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اتنا زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوگا۔

لیکن عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بھی ان اکثریتی لوگوں میں شامل ہیں جو سزائے موت پر عملدرآمد کے حق میں ہیں۔ جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔

"یہ تو آپ کے قانون میں لکھا ہوا ہے یا تو آپ قانون میں ترمیم کردیں۔۔۔جب سزائیں مل جاتی ہیں تو آپ ان پر عملدرآمد کیوں نہیں کرتے ان پر عملدرآمد کرنا چاہیے یہ قانون میں آئین میں ہے اگر آپ زیادتی کرو گے جو اس کی سزا ہے تو وہ آپ کو ملنی چاہیے۔"

ادھر اسکول پر حملے میں ہونے والی ہلاکتوں پر پشاور میں جمعرات کو بھی فضا سوگوار رہی جب کہ اس شہر کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں کی طرف سے مرنے والوں کی یاد میں تقاریب اور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

اسکول پر حملہ کرنے والے تمام سات دہشت گرد فوجی کارروائی میں مارے گئے تھے اور حکام جائے وقوع سے شواہد جمع کر کے اس کی تحقیقات شروع کر چکے ہیں۔

خیبر پختونخواہ پولیس کے سربراہ ناصر خان درانی نے جائے وقوع پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "ہم یہاں سے تمام شواہد جمع کر رہے ہیں انھیں سائنسی بنیادوں پر جمع کیا جا رہا ہے اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور جو مارے جانے والے شدت پسندوں کا کوئی ساتھی اگر رہتا ہے اس شہر میں یا کسی اور جگہ پر تو ہم اس کا پیچھا کریں گے۔"

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی جس کے خلاف پاکستانی فوج نے پہلے ہی بھرپور کارروائی شروع کر رکھی ہے۔

XS
SM
MD
LG