پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ فوجی قیادت نے ان سے مذاکرات اور معاملات حل کرنے کے لئے 24گھنٹے کا وقت مانگا ہے۔
دونوں رہنماوٴں نے جمعرات کو دھرنے پر بیٹھے شرکا سے الگ الگ خطاب میں کہا کہ پاکستان آرمی چیف، جنرل راحیل شریف نے حکومت اور ان کے درمیان ’ثالث اور ضامن بننے کی پیشکش کی ہے‘۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ فوری طور پر مذاکرات کے لئے جارہے ہیں۔ تاہم، ان کے کارکن جمعہ کو دوبارہ دھرنا دینے پہنچیں۔
انہوں نے خطاب کے دوران کہا کہ کل ساری رات یا تو جشن منایا جائے گا یا پھر اس عوامی تحریک کو مزید آگے بڑھانے کے لئے حکمت عملی پر غور ہوگا۔
ادھر ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے آرمی چیف کو ثالث بننے کی درخواست کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ فوجی سربراہ نے ’ثالث و ضامن بننے‘ پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
بقول اُن کے، اُن سے ہمارے مذاکرات ہوں گے جس کے لئے 24گھنٹے کا وقت درکار ہوگا۔
لیکن، اُن کے الفاظ میں، ’اگر پھر بھی کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا، تو پھر دمادم مست قلندر ہوگا‘۔
طاہر القادری کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں ’یہ پہلی بار ہوا ہے‘ کہ ایک آرمی چیف نے ’اس طرح کے کسی معاملے میں ثالثی کی پیشکش کی ہو‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ پی ٹی اے کے ’اصلاحاتی انقلابی پیکیج‘ اور پی ٹی آئی کے ’آزادی مارچ‘ کے کارکنوں کی، بقول اُن کے ’پہلی فتح ہے‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے حکومت سے مذاکرات کے دروازے بند کردیئے تھے اس لئے وزیر اعظم نے آرمی چیف کو ثالث بننے کی درخواست کی ہے۔
بقول اُن کے، فوجی قیادت کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کو تحریری شکل میں لانے، اس پر فریقین اور ضامنوں کے دستخط ہونے اور ہمارے سارے کارکنوں کے معاملات سلجھانے میں 24گھنٹے لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کی اجازت مانگی اور پاکستانی فوج کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ’ثالثی اور ضامن بننے کے لئے‘ آگے بڑھی۔
پاکستان عوامی تحریک کا ایف آئی آر قبول کرنے سے انکار
اس اعلان سے کچھ ہی دیر قبل پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ماڈل ٹاوٴن لاہور واقعے کی جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت 21افراد کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آرکے متن کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا اعلان کیا۔
گزشتہ 15دنوں سے دھرنے پر بیٹھے عوامی تحریک کے کارکنوں سے خطاب میں طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں ملزمان کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ سات اے ٹی اے کے تحت کارروائی کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔
طاہر القادری کا کہنا تھا کہ پی اے ٹی کے خلاف جتنی بھی ایف آئی آر درج ہوئی ہیں، ان میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ لیکن، بقول اُن کے، واقعے کے ذمے داروں کے خلاف دانستہ یہ دفعات نہیں لگائی گئیں۔ لہذا، ہمیں اس طرح کی نامکمل ایف آئی آر قبول نہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا مزید کہنا تھا کہ جب تک وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف سمیت 21 افراد پر دہشت گردی کی دفعہ نہ لگیں، کارکن اپنے جگہوں سے نہ ہٹیں، کیونکہ، بقول اُن کے، اہم فیصلے ہونے والے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کارکنان ڈٹے رہیں۔اہم فیصلے ہونے کا وقت آگیا ہے۔‘