جب بات داعش کی ہو تو امریکی کانگریس کے رُکن، کیتھ الیسن کھل کر بات کرتے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، الیسن نے، جو امریکی مسلمان ہیں، جنھیں داعش کے شدت پسند گروپ نے حالیہ دِنوں قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔۔۔۔ داعش کے پیغام اور طریقہٴ کار کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
الیسن نے دولت اسلامیہ کے لیے داعش کا لفظ استعمال کیا۔ بقول اُن کے، ’’داعش نا تو اسلامی ہے، نہی ریاست‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’(داعش کی) پوری تحریک ایک فریب کے گِرد گھوم رہی ہے، وہ یہ کہ وہ زمین پر کسی قسم کی اسلامی جنت قائم کریں گے‘‘۔
اُن کے الفاظ میں ’’وہ (داعش) جھوٹے ہیں۔ وہ زانی ہیں۔ لوگوں کو اذیت دیتے ہیں۔ اسلام میں لاش تک کی بے حرمتی کی ممانعت ہے۔ وہ اس کے الٹ کام کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو نذر آتش کرتے ہیں‘‘۔
الیسن نے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ اسلامی روایات یا قرآن سے مطابقت نہیں رکھتا۔
الیسن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور وہ کمیٹی برائے مالی خدمات کے رُکن ہیں۔ وہ منی سوٹا سے تعلق رکھتے ہیں جہاں داعش صومالی نوجوانوں کی بھرتی کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ شام اور عراق جا کر داعش کے ہمراہ لڑیں۔
الیسن کا نام اُس فہرست میں شامل رہا ہے جنھیں دولت اسلامیہ امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا میں ’’سیاسی طور پر متحرک مرتد‘‘ بتایا گیا ہے۔
داعش نے یہ فہرست آن لائن شائع کی تھی، جس میں خون آلود خنجر لہرا رہا تھا اور اُس کے لیڈر أبو بکر البغدادی کا بیان شامل تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’فہرست پر موجود افراد کو عام معافی مل سکتی ہے‘‘ اگر وہ ’’اپنے آپ کو داعش کے سامنے پیش کریں‘‘۔
الیسن نے کہا کہ داعش کے اعمال غیراسلامی ہیں اور یہ کہ داعش سے منسلک متعدد لوگ شام، عراق اور أفغانستان سے بھاگ رہے ہیں۔
داعش کی جانب سے قتل کی دھمکی موصول ہونے کے بعد، الیسن نے کہا کہ اُنھیں اس دہشت گرد گروہ سے کوئی ڈر خوف نہیں ہے اور داعش کے نظریے سے لڑنے کا عہد دہرایا۔ داعش کے حوالے سے، الیسن نے کہا کہ ’’آپ شیطان ہو، ظالم ہو، اور میں تمہارے نظریے کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
الیسن کی آبائی ریاست، منی سوٹا میں اِن دِنوں اس مقدمے کی سماعت جاری ہے جس کا تعلق دہشت گردی سے ہے، جس میں داعش کے لیے بھرتی کرنے والے صومالی نژاد امریکی نوجوان مردوں کو شدت پسند خیالات کا حامی بنا کر شام میں لڑنے کے لیے روانہ کرنا چاہتے تھے۔ سنہ 2014 میں ’ایف بی آئی‘ نے منی سوٹا میں 9 نوجوان مردوں کو گرفتار کیا تھا جو مبینہ طور پر شام جا کر داعش میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مشتبہ افراد نے امریکی جج کو بتایا ہے کہ داعش کے پروپیگنڈا وڈیوز اور سماجی میڈیا نے اُن کا ذہن بدلہ تھا کہ وہ داعش کے گروپ میں شمولیت اختیار کریں گے۔
الیسن نے نوجوانوں پر ہوش مندی سے کام لینے کے لیے کہا، تاکہ وہ داعش کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔
الیسن کے الفاظ میں، ’’میں اُن تمام نوجوان افراد سے کہتا ہوں کہ وہ اِس (داعش کی) دروغ گوئی کے شکنجے میں نہ آئیں، اُس جھوٹ کو گہرائی سے پرکھیں جو آپ سے بولا جارہا ہے، جو آپ کو اکیلا کرنے کے لیے بولا جارہا ہے، اور کبھی بھی کسی بات پر یقین نہ کریں جو داعش کہتا ہے‘‘۔
الیسن نے امریکی مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ آئندہ کے امریکی صدارتی انتخابات میں ایک متحرک کردار ادا کریں۔
بقول اُن کے، ’’اگر آپ شخص ہیں جو قرآن کی تعلیم پر ایمان رکھتے ہیں ۔۔۔ تو آپ کو سمجھنا چاہیئے کہ یہ آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔
الیسن کے الفاظ میں، ’’صرف یہی طریقہ ہے مسلمانوں کی زندگی میں بہتری لانے کا، نہ کہ قتل، ضربِ کاری یا ہلاکت کے داعش کا طریقہٴ کار‘‘۔