اسرائیل کے وزیراعظم نے منگل کے روز آئس کریم کمپنی ’بین اینڈ جیریز‘ کے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں اپنی آئس کریم نہ فروخت کرنے کے فیصلے کے خلاف مہم تیز کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کے امریکہ میں سفیر نے امریکہ کی درجنوں ریاستوں کے گورنروں سے مطالبہ کیا کہ وہ آئس کریم کمپنی کے خلاف ریاستوں کے اسرائیل کے بائیکاٹ کے خلاف قوانین کو استعمال کریں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے یہ سخت ردعمل ملک میں موجود اس خدشے کے تحت ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں مزید کمپنیاں ’بین اینڈ جیریز‘ کی طرح اسرائیل میں کاروبار کرنے سے انکار کر سکتی ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے بتایا کہ وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے ’بین اینڈ جیریز‘ کی پیرنٹ کمپنی یونی لیور کے چیف ایگزیکٹو ایلن جوپے سے بات کرتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور اسے اسرائیل مخالف اقدام قرار دیا۔ دفتر کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ اس اقدام کے سنگین قانونی اور دیگر نتائج ہوں گے اور اسرائیل اپنے شہریوں کے بائیکاٹ کے خلاف سختی سے ردعمل دے گا۔
اے پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں مجوزہ کمپنی سے سوال کرنا چاہئے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک کے خلاف ہے اور یہ کہ ایسی تحریک ایک ملک کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بناتی ہے۔
اسرائیل کے امریکہ اور اقوام متحدہ میں سفیر جیلاد اردان نے ان 35 امریکی ریاستوں کے گورنروں کو خطوط بھیجے ہیں، جہاں اسرائیل کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ سفیر نے خطوط میں مطالبہ کیا کہ ان ریاستوں کے گورنر ’بین اینڈ جیریز‘ کے اس فیصلے کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں اور اس بارے میں وہ ریاستی قوانین کے مطابق جو اقدامات اٹھا سکتے ہیں، وہ اٹھائیں۔
اردان نے کہا کہ اسرائیل آئس کریم کمپنی کے اس اقدام کو درحقیقت یہود مخالف سرگرمیوں کا اختیار کرنا اور اسرائیلی ریاست کے جواز کو ختم کرنے اور یہودی افراد کی انسانیت کو سلب کرنے کی جانب ایک قدم سمجھتا ہے۔
اسرائیلی سفیر کی جانب سے امریکی ریاستوں کے گورنروں کو لکھے گئے خط کے مطابق، ایک ایسے وقت میں 'جب عرب ملک اسرائیل کا کئی دہائیوں سے جاری بائیکاٹ ختم کرنے پر راضی ہو رہے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کئے جا رہے ہیں، خطے میں ثقافتی اور معاشی تعاون بڑھ رہا ہے، نظریاتی طور پر انتہا پسند ایجنڈا کی حامل امریکی کمپنیوں کو ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جو امریکہ کی اپنی پالیسیوں کے خلاف ہو'۔
خط کے مطابق،'ماضی گواہ ہے کہ ایسے بائیکاٹس کا اثر صرف اسرائیل کے شہریوں پر نہیں پڑتا، بلکہ ان سے فلسطینیوں کو بھی نقصان ہوتا ہے'
یاد رہے کہ پیر کے روز آئس کریم بنانے والی امریکی کمپنی ’بین اینڈ جیریز‘ نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے زیر انتطام مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اپنی آئس کریم فروخت کرنا بند کر دے گی۔
کمپنی کے مطابق ان علاقوں میں اپنی مصنوعات کی فروخت کمپنی کی اخلاقی اقدار کے خلاف ہیں۔
اے پی کے مطابق کمپنی کی جانب سے اس بیان کو کسی بھی بڑی کمپنی کی جانب سے اسرائیل کی مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں نوآبادیات کی پالیسی کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ علاقے اسرائیل کے قبضے میں 1967 کی جنگ کے بعد سے چلے آ رہے ہیں۔
اے پی کے مطابق فلسطینی، بڑے پیمانے پر بین الاقوامی حمایت کے ساتھ ان علاقوں کو مستقبل میں اپنی آزاد ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ان علاقوں میں قائم نوآبادیاں، جن میں 7 لاکھ کے قریب اسرائیلی شہری رہتے ہیں، بین الاقوامی طور پر غیر قانونی سمجھی جاتی ہیں اور انہیں خطے میں امن میں رکاوٹ خیال کیا جاتا ہے۔
اسرائیل، جس نے مشرقی یروشلم پر 1967 کی جنگ کے دوران کنٹرول حاصل کیا تھا، پورے شہر کو اپنا دارالحکومت مانتا ہے۔ اگرچہ اسرائیلی کنٹرول کو بین الاقوامی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور مغربی کنارے کو متنازع علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی کمیونٹی ان دونوں علاقوں کو مقبوضہ علاقے تصور کرتی ہے۔
اپنے بیان میں ’بین اینڈ جیریز‘ نے کہا کہ اس نے اسرائیل میں اپنے شراکت دار کو مطلع کر دیا ہے کہ وہ اس کا 2022 کے آخر میں ختم ہونے والا لائسنس دوبارہ بحال نہیں کرے گی۔