وائس آف امریکہ کے مطابق جمعے کے روز بھی غزہ میں اسرائیلی فورسز اور حماس کے مابین لڑائی جاری رہی۔ جہاں ایک طرف، امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی جنگی حکمت عملی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، وہیں نیدرلینڈز میں ایک عدالت نے ملک کو اجازت دی ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگی جہازوں کےفاضل پرزے فراہم کر سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے کوشش کی تھی کہ اسرائیل کو اس کے ایف 35 جیٹ طیاروں کے لیے ضروری پارٹس فراہم کرنے سے نیدرلینڈز کو روکا جائے۔
ان کے مطابق یہ طیارے اسرائیل کی حماس کے خلاف جاری لڑائی میں جس طرح استعمال ہو رہے ہیں، اس سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
غزہ میں انسانی بحران
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر نے جمعے کے روز کہا کہ غزہ کے ہزاروں بے گھر افراد رفح میں دسمبر کی تین تاریخ سے جمع ہیں۔ آفس کا کہنا ہے کہ وہاں مجمع کی تعداد بہت زیادہ ہے اور صفائی ستھرائی کے انتظامات انتہائی ناقص جس سے بیماریوں کے پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ کے آفس کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کی حزب اللہ سے لڑائی کے بعد لبنان کی سرحد کے ساتھ رہنے والے جو ہزاروں اسرائیلی بے گھر ہوگئے تھے، انہیں اپنے گھروں کو لوٹنے کی ضرورت ہے۔
شہری ہلاکتیں
جہاں امریکی حکام نے غزہ میں جاری اسرائیلی عسکری آپریشن کی حمایت جاری رکھنے کے بیانات دیے ہیں وہیں صدر بائیڈن سمیت امریکی حکام نے غزہ میں بڑے پیمانے پر ہوئی شہری ہلاکتوں پر تشویش بھی ظاہر کی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 18 ہزار 6 سو شہری ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے ستر فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔ یاد رہے کہ حماس کے ساتھ اکتوبر کے حملے میں بارہ سو اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے اور 240 افراد کو یرغمالی بنایا گیا تھا۔
امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی کونسل مین سٹریٹیجک کمیونیکیشنز کے کوآرڈینیٹر، جان کربی نے کہا ہےکہ اسرائیل کے لیے ہماری حمایت میں کمی نہیں آئی ہے، لیکن اس عسکری آپریشن کی کارروائیوں پر ہمیں تشویش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ لڑائی حماس نے شروع کی اور وہی اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیل کا موقف
اسرائیل نے اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ شہری ہلاکتیں کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے جن میں لوگوں کو لڑائی والی جگہوں کو چھوڑ دینے کے احکامات بھی شامل ہیں۔
اسرائیل نے حماس پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ جان بوجھ کر آبادی کے درمیان سے اپنی کارروائیاں کرتا ہے۔
اسرائیل کی فوج کی ایک بریفنگ کے دوران میجر کیرین حاجی اووف نے کہا کہ ہم بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی اقدار کو ماننے والی فوج ہیں اور ہم نے شہری ہلاکتوں کو محدود کرنے کے لیے اپنا خطیر سرمایہ خرچ کیا ہے۔
انہوں نے کہا تاہم حماس شہریوں کوانسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہماری لڑائی حماس کے خلاف ہے، غزہ کے لوگوں کے خلاف نہیں ہے۔
امدادی اداروں کی غزہ کی صورتحال پر شدید تشویش
اقوام متحدہ کی فلسطینی مہاجروں کی ایجنسی کے مطابق انیس لاکھ افراد، یعنی غزہ کی پچاسی فیصد آبادی اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
ادارے کے مطابق ان میں سے گیارہ لاکھ افراد ایجنسی کے وسطی اور جنوبی غزہ کے دفاتر میں رجسٹر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے شیلٹروں میں گنجائش سے نو گنا زیادہ افراد پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے گھروں کو چھوڑنے کے احکامات اور جنگ کی وجہ سے اکثر فلسطینی جنوب کی جانب روانہ ہوگئے ہیں۔ ایسے میں جب لڑائی جنوب کی جانب بڑھ رہی ہے، انسانی امداد کے کارکنوں کے پاس شمال کی رسائی ختم ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے آفس کا کہنا ہے کہ وہ محدود پیمانے پر امداد ہی فراہم کر پا رہا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے جمعرات کے روز غزہ کے اپنے دورے کے بعد نیویارک میں اقوام متحدہ کے دفتر میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ غزہ میں شہریوں کی حالت بہت بدحالی اور بد انتظامی کی جانب بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ دس میں سے نو افراد کے لیے خوراک کی رسائی محدود ہے، یا وہ ہر روز کھانا نہیں کھا پا رہے، یا انہیں نہیں معلوم کہ ان کو اگلی بار کھانے کو کب ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سے یکم دسمبر سے سیز فائر کے بعد سے لڑائی دوبارہ شروع ہوئی ہے۔ ادارے کی جانب سے خوراک کی کوئی امداد غزہ کے شمال تک نہیں پہنچ سکی۔
وائس آف امریکہ کی وائٹ ہاؤس کی نمائندہ انیتا پاؤل کی رپورٹ
فورم