اسرائیل نے ہفتے کو کہاہے کہ اس کی پیادہ فوج اور بکتر بند گاڑیاں غزہ میں اپنی زمینی کارروائی کو وسیع کر رہی ہیں اور اسے "بڑے پیمانے پر" فضائی اور سمندر سے حملوں کی حمایت حاصل ہوگی۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے کہا ہے کہ فورسز اب بھی غزہ میں ہیں اور جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس سے قبل اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب شمالی غزہ کی پٹی میں 150 زیر زمین اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں دہشت گردی کی سرنگیں، زیر زمین جنگی جگہیں اور اضافی زیر زمین انفرااسٹرکچر شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ تازہ ترین کارروائی میں حماس کے کئی دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
ادھر حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈز نے ہفتے کی صبح کہا کہ اس کے جنگجو غزہ کے شمال مشرقی قصبے بیت حنون اور البریج کے وسطی علاقے میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ جھڑپیں کر رہے ہیں۔
مسلح ونگ نے کہا کہ القسام بریگیڈز اور تمام فلسطینی مزاحمتی قوتیں پوری طاقت کے ساتھ جارحیت کا مقابلہ کرنے اور دراندازی کو ناکام بنانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان نے کہاہے کہ وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعے کو اسرائیلی ہم منصب یواو گیلنٹ سے بات کی اور "اسرائیل کی دفاعی افواج کی کارروائیوں کے دوران شہریوں کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا اور غزہ میں شہریوں کے لیے انسانی امداد کی فوری فراہمی پر توجہ مرکوز کی۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگان نے کہا کہ آسٹن نے "حماس کی تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کی ضرورت کو بھی اٹھایا۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہاہے کہ انہوں نے غزہ میں اسرائیل کی زمینی کارروائیوں میں توسیع کے بارے میں رپورٹس دیکھی ہیں لیکن ان پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔
کربی نے کہا کہ امریکہ نے غزہ میں اسرائیلی فوجی سرگرمیوں کو روکنے کی حمایت کی ہے تاکہ وہاں کے شہریوں کو انسانی امداد، ایندھن اور بجلی فراہم کی جا سکے اور اگر ممکن ہو تو اسرائیل کے یرغمالیوں کو غزہ سے نکالا جائے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق کربی نے ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ اسرائیل کے لیے حدود طے کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کے لیے سرخ لکیریں نہیں کھینچ رہے ہیں۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ آپریشن کے مقاصد، غزہ میں شہریوں کے تحفظ کی ضرورت، اسرائیلی یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے کوششوں اور غزہ میں زمینی کارروائیوں کے بعد آنے والی چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت کے بارے میں بات کرتا رہا ہے۔
کربی نے کہا، "شروع سے ہی، ہم ان کے ساتھ بات چیت کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے کہ وہ کس طریقے سے ایسا کر رہے ہیں۔ ہم شہریوں کی ہلاکتوں، کولیٹرل نقصانات، اور اس طریقہ کار پرجو وہ اپنائیں، اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہ وہی ہے جو دوست کر سکتے ہیں، اور ہم دوست ہیں۔"
غزہ میں مواصلاتی رابطہ منقطع
جمعے کی شب اسرائیل کی جانب سےغزہ میں شدید بمباری کے نتیجے میں انٹرنیٹ اور فون سروسز منقطع ہوگئیں، جس سے تیئس لاکھ کے علاقے اور بیرونی دنیا میں رابطہ منقطع ہو گیا۔
فلسطینی پہلے ہی بجلی منقطع ہونے کی وجہ سے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ تازہ ترین حملوں نے فلسطینیوں کو اب تنہا کر دیا ہے ۔ وہ گھروں اور پناہ گاہوں میں محصور ہو کر رہ گئے جب کہ ان کو خوراک اور پانی کی فراہمی ختم ہو نے کا سامنا ہے۔
فلسطینی ٹیلی کام سروس فراہم کرنے وا لی کمپنی پیلٹیل نے کہا ہے کہ سروسز میں "مکمل تعطل" بمباری کی وجہ سے ہوا ہے۔
اے پی کے مطابق غزہ میں بلیک آؤٹ ہونے کے باعث اسرائیل کے نئے فضائی حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کا فوری طور پر پتا نہیں چل سکا ہے۔
اسرائیل نے تین ہفتے قبل ملک کے جنوبی حصے پر فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے خونریز حملے کے بعد اسے کچلنے کا عزم کیا تھا۔ اب تک اس جنگ میں دونوں جانب چھ ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہے۔ اسرائیل کی مسلسل فضائی کارروائی کے نتیجے میں غزہ میں بڑے پیمانے پر عمارتیں بھی تباہ ہوئی ہیں۔
ہلال احمر نے کہا ہے کہ وہ اپنی طبی ٹیموں تک نہیں پہنچ سکتا اور رہائشی اب ایمبولینسز کو کال نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امدادی کارکنوں کو حملوں سے زخمی ہونے والوں کو ڈھونڈنے کے لیے دھماکوں کی آواز کا پیچھا کرنا پڑے گا۔
بین الاقوامی امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ سیٹیلائٹ فون کا استعمال کرتے ہوئے صرف عملے کے چند افراد تک ہی پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
غزہ کے لوگوں کے جنگ کے علاقے سے باہر رہنے والے رشتہ دار اس وقت خوفزدہ ہوگئے جب ان کے اندر موجود خاندانوں کے ساتھ ان کی میسجنگ چیٹ اچانک ختم ہوگئی اور کالیں آنا بند ہوگئیں۔
مغربی کنارے کے شہر رملہ میں قائم ایک حقوق نسواں تنظیم کی ڈائریکٹر وفا عبدالرحمٰن نے کہا، "میں بہت خوفزدہ تھی کہ ایسا ہونے والا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ وسطی غزہ میں ان کا اپنے اہلِ خانہ سے گھنٹوں تک رابطہ نہیں ہو پایا۔
وفا عبدالرحمن نے کہا،"ہم ٹی وی پر لائیو ہونے پر یہ خوفناک چیزیں اور قتل عام دیکھ رہے ہیں، تو اب جب مکمل بلیک آؤٹ ہو گا تو کیا ہوگا؟"
وہ ان خاندانوں کے مناظر کا حوالہ دے رہی تھیں جو گزشتہ ہفتوں کے دوران فضائی حملوں سے گھروں میں کچلے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا کہ زمینی افواج جنگ کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بڑی طاقت سے کام کر رہی ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے حملوں میں حماس کے جنگجوؤں اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ کہ عسکریت پسند شہریوں کے بیچ میں سے کام کرتے ہیں، جس سے شہری خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔
اس خبر میں شامل مواد خبر رساں اداروں' ایسوی ایٹڈ پریس' اور' رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔
فورم