روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کا کہنا ہے کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ نے جمعرات کے روز ماسکو میں حماس کے نمائندے ملاقات کی جس میں جنگ بندی اور غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کی فراہمی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے بتایا ہے کہ حماس کے سیاسی بیورو کے ڈپٹی چیئرمین ابو مرزوق نے ایران کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور علی باقری کنی کے ساتھ ملاقات میں ایران کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت کو سراہا۔
اس ملاقات سے پہلے ابو مزروق نے ماسکو میں روسی سفارت کاروں سے ملاقات کی۔روس کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ دونوں عہدے داروں نے غزہ کی پٹی میں رکھے گئے یرغمالوں کی رہائی اور غیر ملکیوں کے انخلا پر بات چیت کی۔
ایرانی عہدے دار اور حماس کے نمائندے کے ماسکو کے اس دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس ایک ایسے موقع پر مشرق وسطیٰ کے اس تنازع میں اہم ثالث کے طور پر کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ وہ خود یوکرین کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا ہے۔
روسی ایجنسی نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس ملاقات میں روس کا بھی کوئی نمائندہ موجود تھا۔
روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ ماسکو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ اس کے دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔
اس دعویٰ کے باوجود روس نے اس سے قبل سلامتی کونسل میں جس قرارداد کا مسودہ پیش کیا تھا ، اس میں شہریوں کے خلاف تشدد کی مذمت کرنے کے باوجود حماس کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل میں یہ قرار داد مسترد ہو گئی تھی۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے حماس کے نمائندوں کو دعوت دینے کےماسکو کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کی مدد کےاقدام سے تعبیر کیا اور حماس کے وفد کو روس سے نکالنے کا مطالبہ کیا ۔
اس کے جواب میں کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعے کے روز کہا کہ روس تمام فریقوں کے ساتھ رابطے قائم رکھنا ضروری خیال کرتا ہے۔
روسی خبررساں ایجنسی تاس نے کہا ہے کہ اس ملاقات میں ایرانی نائب وزیر خارجہ علی باقری نے حماس کے نمائندے ابو مرزوق سے کہا کہ تہران کی ترجیح ، فوری جنگ بندی، لوگوں کے لیے امداد کی فراہمی اور غزہ کی سخت ناکہ بندی کا خاتمہ ہے۔
جمعرات کو ایرانی سفارت کار باقری کنی نے روس کے نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوف سے بھی ملاقات کی جو مشرق وسطیٰ کے لیے کریملن کے ایلچی کے طور پر کام کرتے ہیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے روس اور اسرائیل کے درمیان تجارتی اور سیکیورٹی کے تعلقات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد اگرچہ اسرائیل نے کیف کی حمایت کی تھی لیکن اسے ہتھیار فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
دوسری جانب یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس اور ایران کے تعلقات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایران نے روس کو بڑی تعداد میں ڈرون فراہم کیے ہیں جسے روس یوکرین میں توانائی کی تنصیبات اور دیگر اہم انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو ہلاک اور زخمی کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ایران کو توقع ہے کہ ماسکو اس کے بدلے میں اسے جدید لڑاکا طیارے اور دیگر جدید ہتھیار فراہم کرے گا۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)
فورم