واشنگٹن —
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، مسعود خان نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ شام کے بارے میں مجوزہ مذاکرات، جسے ستمبر تک ملتوی کردیا گیا ہے، جلد از جلد ہونے چاہئیں، تاکہ شام کی ابتر ہوتی ہوئی صورتِ حال سے نمٹا جاسکے اور خون خرابہ بند کیا جاسکے۔
’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سے نیویارک سے ٹیلی فون پر ایک انٹرویو میں مسعود خان نے کہا کہ پاکستان نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ شام میں امن کے لیے کوششیں تیز کردی جائیں۔
اُنھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ جتنا اسلحہ اور گولہ بارود وہاں بھیجا جائے گا، جنگ کے شعلے وہاں زیادہ بھڑک اٹھیں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ موجودہ منظرنامے میں نہ صرف شام غیر مستحکم ہو رہا ہے، بلکہ خطے کے دوسرے ممالک میں بھی عدم استحکام آ رہا ہے۔
شام کے بارے میں پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے جتنا جلد ہوسکے جنیوا میں مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور ایسا طریقہ تلاش کریں جس سے کوئی سیاسی راستہ نکلنے اور قومی مصالحت کی راہ ہموار ہو۔
اُنھوں نے کہا کہ جنگ یا اسلحے کے ذریعے امن نہیں آسکتا۔ اس کے لیے مذاکرات لازمی ہیں۔
مسعود خان نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان امریکہ اور روس کے درمیان مشاورت ہو رہی ہے اور جب ان دونوں کے درمیان اتفاق رائے ہو سکے گا تو امن اور سلامتی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
تاہم، اُنھوں نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو اپنے اختلافات کم کرنے چاہئیں اور اختلافات کو مٹا کر شام کے لوگوں کی مدد کرنی چاہیئے۔
مسعود خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ شام میں خون بہایا جارہا ہے، لاکھوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں اور لاکھوں اپنے گھر بار سے محروم ہوگئے ہیں اور اُنھیں پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے پڑی ہے۔
اُنھوں نے اس طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ شام کے پڑوسی ممالک سعودی عرب، اردن، قطر، لبنان اور ترکی کو بھی چاہیئے کہ وہ شام کی حکومت اور اپوزیشن کو مشورہ دیں کہ دونوں جنگ رکوانے کے لیے اقدامات کریں۔
پاکستانی سفیر نے زور دیا کہ مشاورت کے عمل کو تیز کیا جانا چاہیئے۔ اُنھوں نے کہا کہ شام کے بحران کا حل مذاکرات میں ہی مضمر ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سے نیویارک سے ٹیلی فون پر ایک انٹرویو میں مسعود خان نے کہا کہ پاکستان نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ شام میں امن کے لیے کوششیں تیز کردی جائیں۔
اُنھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ جتنا اسلحہ اور گولہ بارود وہاں بھیجا جائے گا، جنگ کے شعلے وہاں زیادہ بھڑک اٹھیں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ موجودہ منظرنامے میں نہ صرف شام غیر مستحکم ہو رہا ہے، بلکہ خطے کے دوسرے ممالک میں بھی عدم استحکام آ رہا ہے۔
شام کے بارے میں پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے جتنا جلد ہوسکے جنیوا میں مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور ایسا طریقہ تلاش کریں جس سے کوئی سیاسی راستہ نکلنے اور قومی مصالحت کی راہ ہموار ہو۔
اُنھوں نے کہا کہ جنگ یا اسلحے کے ذریعے امن نہیں آسکتا۔ اس کے لیے مذاکرات لازمی ہیں۔
مسعود خان نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان امریکہ اور روس کے درمیان مشاورت ہو رہی ہے اور جب ان دونوں کے درمیان اتفاق رائے ہو سکے گا تو امن اور سلامتی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
تاہم، اُنھوں نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو اپنے اختلافات کم کرنے چاہئیں اور اختلافات کو مٹا کر شام کے لوگوں کی مدد کرنی چاہیئے۔
مسعود خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ شام میں خون بہایا جارہا ہے، لاکھوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں اور لاکھوں اپنے گھر بار سے محروم ہوگئے ہیں اور اُنھیں پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے پڑی ہے۔
اُنھوں نے اس طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ شام کے پڑوسی ممالک سعودی عرب، اردن، قطر، لبنان اور ترکی کو بھی چاہیئے کہ وہ شام کی حکومت اور اپوزیشن کو مشورہ دیں کہ دونوں جنگ رکوانے کے لیے اقدامات کریں۔
پاکستانی سفیر نے زور دیا کہ مشاورت کے عمل کو تیز کیا جانا چاہیئے۔ اُنھوں نے کہا کہ شام کے بحران کا حل مذاکرات میں ہی مضمر ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے: