رسائی کے لنکس

بھارت: علیحدگی پسند کشمیری رہنما الطاف شاہ کا پولیس کی حراست میں انتقال


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

سرکردہ کشمیری علیحدگی پسند الطاف احمد شاہ کو چار سال قبل دہشت گردی کی کارروائیوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ قید کے دوران ان کی صحت گرتی رہی جس کے بعد انہیں علاج معالجے کی فراہمی کے لیے ان کی بیٹی کو مسلسل کوششیں کرنا پڑیں۔ ان کوششوں کے بعد الطاف شاہ کو دو ہفتے پہلے عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ منگل کو 66 برس کی عمر میں چل بسے۔

الطاف شاہ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1980 کی دہائی میں اسلامی جمعیتِ طلبہ میں شامل ہوکر کیا تھا۔ وہ بعد میں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے ایک فعال رکن بنے۔ جماعتِ اسلامی 1993 میں قائم کئے گئے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کےاتحاد، کُل جماعتی حریت کانفرنس میں، ایک اکائی کے طور پر شامل ہوئی تھی۔

تاہم جماعتِ اسلامی میں کئی دہائیوں تک شامل رہنے والے سرکردہ آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری عسکری تحریک کے حوالے سے اپنی پارٹی کی سوچ سے اختلاف کے بعد 2003 میں اس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ اور تحریکِ حریت جموں و کشمیر کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تھی۔ الطاف شاہ سید گیلانی کے داماد اور دستِ راست تھے۔ وہ بھی جماعتِ اسلامی سے الگ ہوکر اس نئی سیاسی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔

بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی نے 2017 میں الطاف شاہ پر دہشت گردی کی مالی معاونت کےالزامات میں جو مقدمہ درج کیا تھا اُس میں ان کے علاوہ تقریبا" ایک درجن دوسرے ملزمان کے خلاف فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

اس فرد جرم میں کہا گیا تھا کہ انہوں نےدنیا بھر میں ایک ایسا جامع ڈھانچہ اور میکانزم قائم کر رکھا تھا جس کے ذریعے جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ اور دوسری غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے تحریکِ آزادی کے نام پر بھاری رقوم جمع کی جارہی تھیں۔

اس مقدمے کے ملزمان میں قوم پرست جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چئیرمین محمد یاسین ملک بھی شامل تھے جنھیں رواں برس میں این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے ٹیرر فنڈنگ،بھارت کے خلاف جنگ چھیڑنے اور دہشت گردی کی کاررائیاں کرنے کے الزامات میں مجرم قرار دے کر بعمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بعض تنظیموں نے ماضی میں اس کیس میں گرفتاریوں کو سیاسی نوعیت کا قرار دیا تھا اور بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کیس کی سماعت شفاف ہونی چاہیے۔ جب کہ پاکستان نے بھارتی حکومت پرالزام لگایا تھا کہ وہ کشمیری قیادت کی آواز کو دبانے کے لیے اسے فرضی اور منشا کے مطابق کیسز میں پھنسارہی ہے اور اس کی مذمت کی تھی۔

یاسین ملک کی سزا پر کشمیری کیا کہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:42 0:00

بھارتی عہدے داروں نے اس طرح کے تحفظات اور الزامات کے جواب میں کہا تھا کہ تحقیقات کے دوران ان ملزموں کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت حاصل ہوئے ہیں۔ بھارتی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کی عدلیہ پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں اور یہ مکمل آزاد ہے اور قانون کی بالادستی کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیا جارہا ہے۔

علاج کے لیے بیٹی کی کوششیں

انتقال سے قبل الطاف شاہ کئی دن تک دہلی کے رام منوہر لوہیا اسپتال میں زیرِ علاج رہے تھے۔ چوں کہ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق وہ گردوں کے سرطان کے آخری مرحلے پر پہنچ چکے تھے اور اس اسپتال میں اس بیماری کا موزوں علاج میسر نہیں تھا اس لیےالطاف شاہ کے اہلِ خانہ نے دہلی ہائی کورٹ میں اُنہیں بہتر علاج فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

الطاف شاہ کے اہلِ خانہ نے بھارتی حکام سے انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کرنے کی بھی درخواست کی تھی جس کی کئی کشمیری سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے توثیق کی تھی لیکن بھارتی حکومت نے اس درخواست کو مسترد کردیاتھا۔

اس سے پہلے اُن کی بیٹی روا شاہ نے ،جو ایک صحافی ہیں، بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر اُن کی توجہ تہاڑ جیل میں قید اپنے والد کی گرتی ہوئی صحت کی جانب مبذول کرائی تھی۔

ستمبر کے آخری ہفتے میں لکھے گئے اس خط میں روا شاہ نے کہا تھا اُن کے والد جیل میں دو ہفتے سے بیمار ہیں اور انہوں نے جیل حکام سے بارہا انہیں اسپتال منتقل کرنے کی درخواست کی تھی۔ بالآخر انہیں دہلی کے جنکپوری علاقے میں واقع دین دیال اسپتال لے جایاگیا۔ وہاں کے ڈاکٹروں نے انہیں مزید علاج کے لیے شہر ہی کے رام منوہر لوہیا اسپتال منتقل کرنے کہا تھاجواُن کے بقول اس بات کا عندیہ تھا کہ اُن کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔

لیکن روا شاہ کے اس خط کے مطابق اُن کے والد کو بہتر علاج کے لیے رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل کرانے کے بجائے واپس تہاڑجیل لے جایا گیا اور جب اُن کے اہل خانہ نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی یا این آئی اے کی خصوصی عدالت سے رجوع کیا تو وہ یہ سن کر ششدر رہ گئے کہ جیل حکام نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ الطاف شاہ ذیابیطس اور خون کے غیر معمولی دباؤ کے مریض ہیں۔جبکہ اس رپورٹ میں ان کےنمونیا ، گردوں کی خرابی اور اُن کے جسم میں خون کی انتہائی کمی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

روا شاہ نے کہا تھا کہ یہ اُن کے والد کی ابتر جسمانی حالت کو چھپانے کی ایک دانستہ کوشش ہے اور انہوں نے اس معاملے میں بھارتی وزیرِ اعظم سے مداخلت کرنے اور اُ ن کے والد کو بہتر علاج فراہم کرانے کی درخواست کی تھی۔

روا شاہ نے یکم اکتوبر کو بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ کو بھی ایک خط لکھ کر اُن سے یہ اپیل کی تھی کہ اُن کے والد کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر عدالت میں فیصلہ ہونے تک اُن کےاہل خانہ کو اُن سے ملنے اور انہیں دہلی کے نجی اسپتال اپالو میں منتقل کرانے کی اجازت دی جائے۔ کیوں کہ ان کے والد گردوں کے سرطان کے آخری مرحلے میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہوئی ہے نیز اس کے اثرات سے اُن کے پھیپھڑے اور معدہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔

اس خط میں الطاف شاہ کو اُن کی خراب صحت کی بنیاد پر ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست کی گئی تھی یا پھر انہیں گھر پر نظر بند رکھنے کے لیے کہا گیا تھا تاکہ ان کے اہلِ خانہ اپنی مرضی کے مطابق اُن کا علاج کراسکیں۔

روا شاہ اپنے والد کو علاج معالجے کی فراہمی کے لیے سماجی میڈیا پر بھی متحرک رہیں۔ بالآخر دہلی ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے عدالت نے الطاف شاہ کو نئی دہلی کے ایمز میں داخل کرانے کا حکم جاری کردیا اور اُن کی بیٹی اور بیٹے انیس شاہ کو باری باری اُن کے ساتھ رہنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔

روا شاہ نے وائس آف امریکہ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے والد کو وقت پر بہتر علاج فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا۔

پیر اور منگل کی درمیانی شب کو روا شاہ نے ٹویٹ کرکے اپنے والد کے انتقال کرنے کی خبر دی۔ انہوں نے لکھا "ابو نے ایمز ، نئی دہلی میں اپنی آخری سانس لے لی۔ ایک قیدی کی حیثیت سے۔‘

الطاف شاہ حالیہ برسوں میں قید و بند کے دوراں فوت ہونے والے دوسرےسرکردہ کشمیری علیحدگی پسند رہنما ہیں ۔ مئی 2021 میں سید علی گیلانی کےقریبی ساتھی اور تحریکِ حریت جموں و کشمیر کی سربراہ محمد اشرف خان صحرائی بھی جموں کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے تھے۔ جہاں انہیں صرف چند دن پہلے قریبی علاقے ادھمپور کی ایک جیل سے منتقل کیا گیا تھا۔ وہ کئی امراض میں مبتلا تھے اور اور کووڈ کی وجہ سے جیل میں اُن کی حالت بگڑ گئی تھی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG