خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے خیبر کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی سائیکل ریلی کےانعقاد کے بعد مرکزی حکومت میں شامل جمعیت علماء اسلام (ف)، صوبائی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی پارٹی جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں نے مخالفت کی ہے جب کہ بعض جماعتوں نے احتجاج بھی شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب یہ ریس منعقد کرانے والی خواتین ایسے مزید ایونٹس کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والی صحافی اور سپورٹس وومن جمائمہ آفریدی نے ’پاکستان سائیکلسٹ ایڈونچر سپورٹس وومن‘ نامی تنظیم کے تعاون سے جمعرات اور جمعے کو سائیکل کیمپ اور ریس کا انعقاد کیا تھا۔
جمائما آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس کامیاب سائیکل ریلی نے ان کو حوصلہ دیا ہے اور اب ان کی کوشش ہے کہ اسی قسم کے ریلیوں کا انعقاد دیگر قبائلی اضلاع میں بھی کیا جائے۔
یہ سائیکلنگ کیمپ دو دن پر مشتمل تھا ۔ جمعرات کے روز خواتین کو سائیکل چلانے کی باقاعدہ تربیت دی گئی تھی جب کہ جمعے کو سائیکل ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا۔
جمائما آفریدی نے مزید بتایا کہ ریلی کا انعقاد تاتارہ گراؤنڈ میں کیا گیا تھا جب کہ ریلی میں حصہ لینے والی خواتین مکمل طور پر قبائلی روایات کے مطابق باپردہ تھیں ۔
دو روزہ کیمپ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کیمپ میں درجنوں خواتین شریک ہوئی تھیں جن میں اکثریت طالبات کی تھی۔
’پاکستان سائیکلسٹ ایڈونچر سپورٹس وومن‘ نامی تنظیم کی سربراہ سارہ خان نے بھی ایونٹ کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
جمائما آفریدی نے بتایا کہ سارہ خان دو دن تک لنڈی کوتل ہی میں رہی ہیں۔ انہوں نے خواتین کی تربیت میں از خود حصہ لیا جب کہ ان کی آگاہی میں اہم کردار ادا کیا ۔
قبائلی ضلعے خیبر کی تاریخ میں پہلی بار ہونے والی خواتین کی اس سائیکل ریلی اور کیمپ کے انعقاد پر بعض جماعتوں سے منسلک افراد تنقید بھی کر رہے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کا احتجاج
جماعت اسلامی کی مقامی تنظیم نے اتوار کو اس سائیکل ریلی کے خلاف لنڈی کوتل میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔
احتجاجی مظاہرے سے جماعت اسلامی کے مقامی امیر سید مقتدر شاہ آفریدی، مراد حسین آفریدی، زرنور آفریدی اور دیگر رہنماؤں نے خطاب میں سائیکلنگ کیمپ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی سائیکلنگ اسلامی اقدار اور قبائلی روایات کے منافی ہے۔
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت پانی، بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات پر توجہ دے۔ بیرونی ایجنڈے کے تحت قبائلیوں کی باپردہ خواتین کی بے حرمتی اور بےعزتی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس کے علاوہ مرکزی حکومت میں شامل جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی -ف) کے ضلع خیبر کے امیر مفتی اعجاز شنواری نے بھی اس کیمپ اور سائیکل ریلی پر شدید تنقید کی۔
مفتی اعجاز شنواری کا کہنا تھا کہ یہ سب قبائلی روایات کے خلاف ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس سائیکل ریلی کے حوالے سے ملا جلا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ بعض سوشل میڈیا صارفین اس کی حمایت کر رہے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں جب کہ کچھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اس ریلی کے انعقاد میں اہم کردار ادا کرنے والے جمائما آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بدقسمتی سے مذہبی جماعتوں کے رہنما ہر معاملے کو تنگ نظری اور تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جس کے باعث یہاں پر مثبت تعلیمی اور کھیلوں کی سرگرمیاں محدود ہوتی جا رہی ہے ۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ جماعت اسلامی اور دیگر مخالفت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب سمیت دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں خواتین کے کھیلوں کی سرگرمیوں میں دلچسپی کو ملاحظہ کریں ۔
لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ کمشنر ارشاد مہمند نے جماعت اسلامی کے مظاہرے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ مختصر گفتگو میں کہا کہ قانون میں خواتین کی سائیکلنگ یا دیگر کھیلوں میں حصہ لینے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے سائیکلنگ کیمپ کو پردے سمیت مکمل طور پر سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی جب کہ سائیکل ریلی میں حصہ لینے والی خواتین مکمل طور پر قبائلی روایات اور اسلامی اقدار کے مطابق باپردہ تھیں۔