لاڑکانہ شہرسے نکلنے کے بعد ہمارا ارادہ ان علاقوں میں جانے کاتھا جہاں اب تک سیلاب کا پانی موجود ہے۔ سفر کے دوران ہمیں بہت سے ایسے دیہات پانی میں ڈوبے دکھائی دے رہے تھے لیکن یہ بھی نظر آرہا تھا کہ اس کھڑے پانی کے باوجود لوگ ان علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔
صبح کے آٹھ بجے گاڑی شہر سے نکل کر مرکزی شاہراہ پر آ چکی تھی۔ قد آور درختوں کے درمیان سے سورج کی پھوٹتی کرنیں، خنکی کے موسم میں دور پرے نظر آتے دھندلے مناظر، ٹریکٹر پر بیٹھ کر جاتے محنتی کسان تو کہیں اینٹوں کے بھٹے پر لگی چمنی سے نکلتا دھواں کسی رومانوی منظرسے کم نہ تھا۔
یہ سب شہری زندگی جینے والوں کے لیے ایک خوب صوت منظر ضرور ہوسکتا ہے لیکن جن کی فصلیں اب بھی سیلاب کے پانی میں کھڑی ہیں ان کے دل روز یہ سب دیکھ کر کٹتے ہوں گے۔ کچھ جگہوں پر زرعی زمینوں سے سیلاب کا پانی نکل چکا تھا اور نئی فصل کی تیاری جاری تھی تو کہیں اب بھی کیڑا لگی مرجھائی ہوئی کپاس کھڑے پانی میں نوحہ کناں تھی۔
کئی ایسے ہرے بھرے درخت جن کے سائے تلے کڑی دوپہر میں کسان دو گھڑی سانس لینے کو بیٹھے ہوں گے۔ یہی درخت جنہوں نے ان غریب ہاریوں کے سہانے مستقبل کے خواب سنے ہوں گے اب چار ماہ سے کھڑے پانی کے سبب خالی شاخوں کے ساتھ کھڑے تھے۔
ایک لمحے کو انہیں دیکھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ ان کا سبزہ اب نہیں رہا لیکن کس حوصلے کے ساتھ یہ اب بھی کھڑے ہیں،کہیں بنا پتوں کے تو کہیں مکڑی کے جال میں لپٹے۔
میں ابھی ان سوگ وار درختوں کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے ایک کچے راستے پر چار چھوٹے بچے اسکول کا بستہ لٹکائے ہنستے مسکراتے ہوئے جاتے دکھائی دیے، جن راستوں پر بچے گامزن تھے اس پر گاڑی تو نہیں جاسکتی تھی لیکن پانچ منٹ کی مسافت پر مجھے ایک اسکول نظر آہی گیا۔
گاڑی سے اتر کر میں اسکول کے اندر داخل ہوئی۔ یہ ایک اچھی عمارت تھی جسے بنے ہوئے ابھی تین سال کا عرصہ گزرا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی میری نظر اسکول کے صحن پر پڑی جہاں ایک کرسی پر استاد بر اجمان تھے اور ان کے اردگرد چار بینچوں پر بچے بیٹھے تھے۔
استاد اخبار پڑھنے میں اس قدر مگن تھے کہ وہ میری آمد سے لاعلم رہے۔ اندر کے کلاس رومز میں سے بچوں کے ہنسنے اور بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔میں ان آوازوں کے تعاقب میں اس کلاس روم میں داخل ہوچکی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی تمام بچوں کو ایسے چپ لگی جیسے انہوں نے کسی خلائی مخلوق کو دیکھ لیا ہو۔ یہ ایسی خاموشی تھی جس کے بارے میں مثال دی جاتی ہے کہ سوئی بھی گرے تو آواز آئے۔
اسلام وعلیکم، کیسے ہیں آپ سب؟ میں نے بات کا آغاز کیا۔ سب نے ایک ساتھ پر تپاک سلام کا جواب دیا لیکن اپنی خیریت نہیں بتائی۔ یہ کون سی کلاس ہے؟ میرے اگلے سوال پر سناٹا رہا۔ آپ کون سی کلاس میں پڑھتے ہیں؟ اس سوال پر بھی جوا ب نہ آیا۔ اتنے میں میرے پیچھے ایک بچہ جس کی عمر کوئی 12، 13 برس ہوگی وہ آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ یہاں سب کو اردو سمجھ نہیں آتی۔
و لید اس اسکول میں چوتھی جماعت کا طالبِ علم تھا اور اسے ان سب کا مانیٹر کہا جاسکتا ہے۔ میں نے ولید سے پوچھا کہ یہ سب بچے ایک ہی کلاس کے ہیں؟ تو جواب ملا، نہیں اس میں پہلی سے چوتھی جماعت کے بچے بیٹھے ہیں۔ پانچویں جماعت کو استاد باہر پڑھا رہے ہیں پھر وہ ہمیں پڑھائیں گے۔
کلاس روم میں بلیک بورڈ موجود تھا لیکن بیٹھنے کو فرنیچر نہیں تھا۔ نئی چمکتی ٹائلوں سے بنے تین کلاس روم پر مشتمل یہ ضلع لاڑکانہ کا گوٹھ شیر محمد بروہی کا پرائمری اسکول تھا۔
چند لمحو ں بعد اس اسکول کے واحد حاضر استاد عبدالرزاق جو گزشتہ 32 برسوں سے شعبہ تدریس سے منسلک ہیں میرے ساتھ کھڑے تھے۔ انہیں یہ محسوس ہوا کہ میں محکمۂ تعلیم سے آئی ہوں اور اسکول کا اچانک دورہ میرے مشن کا حصہ ہے۔
انہوں نے مجھ سے کچھ پوچھے بنا ہی وضاحتیں دینا شروع کردیں کہ وہ ابھی ایک کلاس لے کر فارغ ہوئے ہیں اور باقی کلاسز لیں گے۔ میں نے ان کی بے چینی دیکھتے ہوئے اپنا تعارف نہیں کروایا۔ لیکن اب اسکول میں گاؤں کے بہت سے مرد موجود تھے جو مجھے اسکول کی عمارت میں داخل ہوتے دیکھ کر محلے میں اطلاع دے چکے تھے۔
میں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استادعبدالرزاق سے پوچھا، باقی کے استاد کہاں ہیں؟ اور کب سے غیر حاضر ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ تین استاد گزشتہ چار روز سے نہیں آرہے، ایک شہر سے باہر ہیں، دو کے ذاتی مسائل ہیں لیکن پریشانی کی بات نہیں وہ ان کی غیر حاضری کے باوجود اسکول کو اچھے سے مینیج کر رہے ہیں۔
"میڈم اب آپ آ ہی گئی ہیں تو دیکھیں یہ عمارت بنے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے یہاں کلاس میں کرسیاں اور بینچ نہیں ہیں بچے فرش پر پڑھتے ہیں۔ گاؤں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ فرنیچر ڈالیں۔ یہ صحن میں بھی جو چار بینچیں رکھی ہیں یہ گوٹھ کے لوگوں نے دی ہیں۔"
تھوڑی دیر خاموشی کے بعد عبدالرزاق نے پوچھا میڈم آپ برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟ آپ اسلام آباد سے آئی ہیں یا کراچی سے؟ میں نے کہا کہ میں کراچی سے آئی ہوں اور صحافی ہوں آپ مجھے جو سمجھ رہے ہیں میں وہ نہیں ہوں۔
میرے اس انکشاف کے بعد استاد محترم کی پریشانی میں کسی حد تک کمی تو آئی لیکن اب نہ ختم ہونے والی شکایتوں کا ایک انبار ان کے پاس تھا۔ میں ابھی یہ مسائل سن ہی رہی تھی کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ صحن میں جہاں پہلے سے ہی گوٹھ کے لوگوں کا رش بڑھتا جارہا تھا وہاں کوئی بحث ہوگئی ہے اور ایک بزرگ کو سمجھانے کی ناکام کوشش ہورہی ہے۔
میں اس اسکول کے استاد کے ساتھ صحن میں گئی تو سندھی زبان میں پہلا جملہ میری سماعت سے ٹکرایا وہ تھا، "میں اس اسکول کو تالا ڈال دوں گا اگر اب بھی مجھے انصاف نہ ملا۔" اس سے پہلے کہ عبد الرزاق کچھ کہتے 70 سالہ بزرگ قادر بخش نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ تمہیں سرکار نے اس لیے بھیجا ہے کہ دیکھو کہ اسکول میں پڑھائی چل رہی ہے یا نہیں؟مجھے بس یہ بتاؤ کہ میرے بیٹوں کو کب نوکری ملے گی؟
میں نے کہا کہ میں اس معاملے سے واقف نہیں اگر آپ مجھے تفصیل سے بتائیں تو میں سمجھ پاؤں گی، میرے جواب پر قادر بخش نے کاغذات کاپلندہ میرے سامنے رکھا اور اب اپنی بات اردو میں شروع کی۔
"میں نے سندھ سرکار کو اسکول کے لیے تین سال پہلے زمین دی تھی۔ یہ زمین 10 ہزار اسکوئر فٹ پر ہے اس کی مالیت دو کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔اس علاقے کے بچوں کے پاس اسکول نہیں تھامیں نے حکومت کو اس وعدے پر زمین عطیہ کی کہ وہ میرے تین بیٹوں کو اسکول میں سرکاری ملازمت دیں گے۔ لیکن زمین بھی لے لی اسکول بھی بن گیا اور نوکریاں اب تک نہیں دیں۔"
قادر بخش نے کہا "میں کئی بار درخواستیں لکھ چکا ہوں لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ اگر اب بھی میری نہ سنی گئی تو میں اس اسکول کو تالا لگا دوں گا۔"
قادر بخش بہت غصے میں تھے کیوں کہ ان کے خیال میں ان کے سامنے تین برس بعد ایک سرکاری افسر آ بیٹھی تھی، جس کے سامنے وہ اپنی بھڑاس دل کھول کر نکالیں۔
آپ سرکار کی وعدہ خلافی کی سزا ان بچوں کو دیں گے؟ اسکول کو بند کردیں گے تو یہ 150 بچے کہاں جائیں گے؟ اگر آپ کے بیٹوں کو سرکاری نوکری مل جاتی ہے تو یہ اسکول چلتا رہے گا ایسا ہی ہے؟ میرے سوالات پر ان کا جواب ہاں میں تھا۔
آپ کے بیٹوں کی تعلیم کیا ہے؟ مجھے سن کے حیرت ہوئی جب معلوم ہوا کہ دو بیٹے انٹر اور ایک میٹرک پاس ہے اور وہ اس اسکول میں نوکری پر لگ جائیں ایسا کیسے ممکن تھا؟ تو میرے بیٹوں کو کلرک رکھ دیں چوکیدار بنادیں لیکن سرکاری نوکری تو دیں قادر بخش اب ٹیچر کی نوکری کی ضد سے کچھ ہٹتے نظر آئے لیکن سرکاری نوکری کی خواہش اب بھی رہی۔
ان کی آواز اب مجھ پر اونچی ہوئی تو عبدالرزاق نے انہیں بتادیا کہ یہ سرکاری ملازم نہیں صحافی ہیں اور اسکولوں کے وزٹ پر ہیں۔قادر بخش کے لہجے کی کڑواہٹ کم ہوئی اور کیمرامین کو کلاس رومز کی فوٹیج بناتا دیکھ کر انہیں میرے رپورٹر ہونے کا یقین بھی ہوگیا۔
بیٹی یہ ایک نہیں ایسے بہت سے اسکول ہیں جو سرکار کو یہاں کے رہنے والوں نے اپنی زمینیں دے کر بنوائے ہیں، ہم اپنی زمینوں کی قربانی دے رہے ہیں لیکن اس کے بدلے ہمیں کچھ نہیں مل رہا۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
میرے پاس قادر بخش کی باتوں کے جواب تو بہت تھے لیکن وہ شاید اسے کبھی نہ سمجھتے۔ ان کی خواہش کو دیکھ کر سرکار نے اپنا کام تو کر لیا لیکن ظلم اور ناانصافی تو ان بچوں کے ساتھ ہورہی تھی جن کے پاس اتنے بھی وسائل نہیں کہ پاؤں میں چپل ڈال سکیں۔ وہ ابھی فرش پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔استادوں کی غیر حاضریوں کو دیکھ رہے ہیں، وہ روز صبح اس امید کے ساتھ اسکول میں داخل ہوتے ہیں کہ یہ تعلیم ان کا کل بدلے گی لیکن جاتے اس ڈر کے ساتھ ہیں کہ شاید کل اس دروازے پر تالا پڑا ہوگا تو پھر وہ کہاں پڑھنے جائیں گے۔
عبدالرزاق اب پہلی اور دوسری جماعت کو پڑھانے میں مصروف ہوگئے اور چوتھی پانچویں جماعت کے بچے مجھے کلاس روم سے کبھی جھانک کر دیکھتے ہوئے مسکراتے تو کبھی نگاہ پڑ جانے پر چھپ جاتے۔
پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس کوئی ننگے پاؤں تو کسی کی ٹوٹی چپل ان کے گھر کے حالات بتانے کے لیے کافی تھی لیکن ان کے ہنستے مسکراتے چہرے میرے دل پر بڑھتے بوجھ کو وقتی طور پر کم یا ختم کرنے میں اب بھی ناکام تھے ۔
اسکول سے رخصت لیتے وقت جب میں نے سب بچوں کو خدا حافظ کہا تو ولید جو میرا ٹرانسلیٹربنا ہوا تھا مسکراکر کہنے لگا میڈم یہ بچے آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ میں ایک دم رکی تو کچھ دور درجن بھر بچے کھڑے مسکراکر مجھے دیکھ رہے تھے۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ اس اسکول میں ہمیں پڑھانے آجائیں؟
یہ سن کر میرا دل ڈوب سا گیا پر میرے پاس سوائے مسکراہٹ کے کوئی جواب نہ تھا۔ بس اتنا ہی کہہ سکی کہ تم لوگ خوب محنت سے پڑھو اور اپنا نام روشن کرو۔وہ سب آگے بڑھے اور ایک ایک کر کے ہاتھ ملا کر واپس کلاس میں چلے گئے۔
گاڑی میں بیٹھ کرڈرائیور کو گوٹھ کوٹھی کلہوڑاکی جانب جانے کو کہا اور راستے بھر سرکار اور قادر بخش کی جنگ کے درمیان مستقبل سے انجان ان بچوں کے بارے میں سوچتے ہوئے اگلے سفر کا آغاز کردیا۔
راستے میں پھر وہی بنا پتوں کے کھڑے قد آور درخت نظرآنے لگے اب یہ درخت اس اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی طرح حوصلہ مند دکھائی دینے لگے جن کی جڑوں میں پانی بیٹھ چکا تھا لیکن وہ پھر بھی موسم بہار کی امید لیے حوصلے سے کھڑے تھے۔