سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس کے ملزمان کی نظر بندی کا حکم غیر قانونی قرار دے دیا ہے جب کہ نظر بندی کا سرکاری اعلامیہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو رہا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
پیر کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سے استفسار کیا کہ ایسا کیا مواد تھا جس کی بنیاد پر بری ہونے والے پانچ ملزمان کی نظر بندی کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا؟
بینچ میں شامل جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کیا گیا کہ خطرناک ملزمان بری ہوگئے ہیں۔ آپ نے صرف اپنا کام کیا، آپ نے کیسے سمجھا کہ کسی کی جان کو خطرات لاحق ہیں؟
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایسے اشارے ملے ہیں۔
جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ "عدالت کو میڈیا کی پرواہ نہیں، آپ کو ہوگی۔ عدالت صرف ٹھوس شواہد اور قانون کو دیکھے گی اور کچھ نہیں دیکھا جائے گا۔ سب کچھ قانون کے مطابق ہوگا۔"
جسٹس کریم خان آغا نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کیا کسی کو تین ماہ کے لیے شواہد کے بغیر نظر بند کیا جا سکتا ہے؟ ایمان داری سے بتائیں ان افراد کو کیوں نظر بند کیا گیا؟
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ پولیس کا اس میں کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے، ان کے بقول وہ سچ بول رہے ہیں۔انہوں نے عدالت کو یقین دہائی کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں کوئی بد دیانتی نہیں ہے۔
سیکریٹری داخلہ سندھ بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت کے دوران انہوں نے عدالت کو بتایا کہ محکمۂ داخلہ سندھ کے پاس جو مواد آیا، اس کا جائزہ لینے کے لیے چھ دن لگائے گئے۔
ملزمان کی نظر بندی کے حوالے سے انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تمام مواد کا جائزہ لینے کے بعد سرکاری اعلامیہ جاری کیا گیا۔
اس موقع پر عدالت نے سوال اٹھایا کہ اداروں نے مقتولہ کی بہن کو سیکیورٹی دینے کے بجائے ملزمان کو ایم پی او کے تحت نظر بند کردیا۔اس سے پہلے کئی ٹارگٹ کلرز بری ہوئے، انہیں ایم پی او کے تحت کیوں نہیں بند کیا گیا؟
اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ تمام متاثرہ افراد کو وضاحت کا موقع دیا گیا تھا۔ نظر بندی کا نوٹی فکیشن قانون کے مطابق جاری کیا گیا،اس قانون کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ اس سے متعلق قانون واضح ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں خفیہ اطلاعات پر مبنی رپورٹس موجود ہیں، مدعیہ کو خطرات کے متعلق بتایا گیا ہے۔ اس لیے بری ہونے والوں کی نظر بندی کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا۔
اس موقع پر جسٹس کریم خان آغا نے کہا کہ خفیہ اطلاعات پر مبنی رپورٹ بھول جائیں۔یہ بدترین رپورٹس ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل محمود اے قریشی کا کہنا تھا کہ ملزمان کی نظر بندی کا نوٹی فکیشن میرٹ کے خلاف ہے۔ صرف مفروضوں اور افواہوں کی بنیاد پر نظر بندی کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نظر بندی کا نوٹی فکیشن آئین کے آرٹیکل چار، نو اور دس کی خلاف ورزی ہے جب کہ یہ غیر قانونی ہے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس کے ملزمان کی نظر بندی غیرقانونی قرار دے دی جب کہ ملزمان کی ایم پی او کے تحت نظر بندی کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے کر ملزمان کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔