’ریڈیو جاپان‘ کے جنوبی ایشیا کے سابق سربراہ، ہیرو فومی ساتو نے کہا ہے کہ جاپان کے زلزلہ اور سونامی زدہ علاقے میں بحالی کا کام شروع ہوچکا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہاں گھر، بجلی، پانی، سڑکیں اور گیس جیسی بنیادی ضروریات ’ سب کچھ ختم ہوچکا ہے‘۔
اتوار کو’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی انٹرویومیں اُنھوں نے کہا کہ ملک کا شمال مشرقی خطہ قدرتی آفات سے متاثر ہے۔ لیکن ، جس طرح سے تباہ حال اور ملبے کا ڈھیرصورتِ حال میں مقامی لوگ یہاں تک کہ فائر برگیڈ ایک نئے عزم اور جستجو کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، لگتا ہے کہ سب کے سب لوگ تعمیرِ نو کےلیے کچھ نہ کچھ کرکے رہیں گے۔ ‘
ساتو سن، ریڈیو جاپان کے ریجنل سروسز کے سابق ڈپٹی چیف بھی رہ چکے ہیں۔ وہ روانی کے ساتھ اردو بولتے ہیں۔اُنھوں نے بتایا کہ متاثرین کو حکومت کی طرف سے عارضی مکانات دیے گئے ہیں۔
ٹوکیو کے بارے میں ایک سوال پر ساتو سن نے کہا کہ شہر کی گہما گہمی گہنا گئی ہے، لوگ خواہ مخواہ باہر نہیں نکلتے۔ شہر میں روٹی اور چاول کی رسد کم ہوگئی ہے، لیکن باعزم صارفین نے ضروری اشیا کا استعمال کم کردیا ہے، تاکہ جن علاقوں کو زیادہ ضرورت ہے اُن کویہ اشیا آسانی سے دستیاب ہو سکیں۔ بازاریں گاہکوں سے خالی ہیں، ریل اور ٹرام پر سفر کرنے والوں کی تعداد بھی کم ہے۔
زلزلے کے بعد آنے والے جھٹکوں کے بارے میں سوال پر اُنھوں نے کہا کہ اب اِن’ آفٹر شاکس ‘کی شدت کم ہو تی جارہی ہے، پہلے جہاں سات کی شدت تھی وہاں ہوتے ہوئےچار اور تین رچٹر اسکیل تک کی شدت رہ گئی ہے اور لوگوں کی برداشت بڑھ گئی ہے۔
قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والےنقصانات کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ جانی نقصان کا صحیح اندازہ لگایا جارہا ہے، 14000سے زائد مکانات تباہ ہوگئے ہیں جب کہ ایک لاکھ 30ہزار مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ اُدھر، تین لاکھ 35ہزار متاثرینِ زلزلہ و سونامی کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل کردیا گیا ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’بات یہ ہے کہ وسطی جاپان سے شمال تک لوگ صرف زلزلے کی ہی باتیں کرتے رہتے ہیں۔‘
تابکاری کے بارے میں سوال پرکہ کیا دودھ اور پالک میں تابکاری کے اثرات پائے گئے ہیں، ساتو سن نے کہا کہ حقائق اتنے خوفناک نہیں۔ ’ہاں جہاں نیوکلیئر پلانٹ ہیں وہاں کی سبزیوں کے استعمال پر پابندی ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ کسی حد تک تابکاری کے خطرے پر قابو پا لیا گیا ہے، لیکن اِس کے بارے میں دو ٹوک جواب ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔ ’ہم امید کر سکتے ہیں، لیکن یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘
تفصیلی انٹرویو کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: