اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے بھاگ کر یہودی پناہ گزین ہنگری میں ایک غیر استعمال شدہ تفریحی مقام کے ایک کیمپ میں تحفظ تلاش کر رہے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے اس سے قبل 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے دوران فرار ہوئے تھے ۔
اس کیمپ میں اس وقت لگ بھگ 250 لوگ رہتے ہیں جن میں بچے شامل ہیں ۔ پناہ گزینوں کو اس کیمپ میں کوشر کھانا، شیلٹر اور دوستانہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔
جب حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا اس وقت یہ کیمپ پہلے سے ہی کام کررہا تھا اور وہ نئے تنازع سے بھاگ کر آنے والوں کو قبول کرنےکے لیے تیار تھا۔
اگرچہ اس کیمپ کے رہائشی اپنے گھر بار چھوڑ نے کے مشترکہ تجربات کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے میں سکون محسوس کر رہے ہیں لیکن انہیں ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ وہ کب واپس جا سکیں گے ۔
زوشا پلیٹنی یوف نے مشرقی یوکرین کے شہر لوہانسک میں اپنے گھر کو2014 میں اس وقت چھوڑا تھا جب روس کے حمایت یافتہ باغیوں نے مشرقی یوکرین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ۔ کچھ سال دار الحکومت کیف میں رہنے کے بعد وہ ایک بار پھر بھاگ کر اسرائیل چلے گئے جہاں ماسکو نے گزشتہ سال فروری میں حملہ شروع کیا۔
یہودی عقیدے کے پپرو کارپلیٹنی یوف ایک نئی زندگی گزارنے کی امیدیں لیے اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ غزہ کی پٹی سے کچھ میل دور واقع اشکیلون میں منتقل ہوئے تھے ۔ لیکن گزشتہ ماہ جب غزہ سے حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر اپنے حملے شروع کئے تو ایک نئی جنگ نے انہیں تیسری بار اپنا گھر بار چھوڑنےپر مجبو ر ہونا پڑا ۔ اس بار انہوں نےہنگری کے ایک دیہی علاقے میں ایک یہودی پناہ گزیں کیمپ میں پناہ لی ہے۔
پلیٹنی یوف ،جن کی اپارٹمنٹ بلڈنگ اشکلون میں حماس کے ایک راکٹ کا نشانہ بنی تھی ، کہتے ہیں کہ" یہاں آکر مجھے اور میری بیوی کو جو سکون ملا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔"
34 سالہ پلیٹنیوف اور ان کا خاندان اب ایک سرکاری ملکیت والی ریزورٹ میں رہ رہے ہیں ۔ انہوں نے مغربی ہنگری کی بل کھاتی جھیل Balaton کے ساحلوں پر لگ بھگ 20 سال کی رہائش کے بارے میں بات کی ۔
اس تفریحی مرکز میں جسے گزشتہ سال یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یوکرین کے پناہ گزینوں کے لیے پہلی بار کھولا گیا تھا ، اس وقت 250 لوگ رہتے ہیں جن میں 100 بچے شامل ہیں ۔ ان میں سے بیشتر سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد کے ہفتوں میں یہاں پہنچے تھے۔
اس کیمپ میں الگ الگ رہائشی یونٹس ہیں اور ایک مرکزی عمارت ہے جہاں روزانہ تین کوشر کھانے فراہم کیے جاتے ہیں۔ رہائشیوں کو شیلٹرہی نہیں بلکہ دوست بھی فراہم کیے جاتے ہیں اور وہ اسپورٹس اور ڈانسنگ جیسی سر گرمیوں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں اور مذہبی تعلیم کے لئے روائتی یہودی درسگاہ میں کلاسیں لے سکتے ہیں۔
کیمپ کے ربی ، مینڈل ماسکووٹز نے کہا کہ ہم یہ یقینی بناتے ہیں کہ لوگ ٹھیک سے کھا رہے ہیں اور اور ذہنی طور پر صحت مند ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ "کیمپ تمام یہودیوں کےلیے کھلا ہے خواہ وہ کٹر ہوں ، سیکولر ہوں یا پریکٹسنگ یہودی نہ ہوں ۔ انہیں یہاں ان کی جگہ ملے گی کیوں کہ ہم سب یہودی ہیں اور ہم سب کی حیثیت پناہ گزین کی ہے ۔ اور یہ بھی یہاں ہر ایک کو اکٹھا رکھنے کی ایک اور وجہ ہے ۔"
ایوا کوپولووچ ، اسرائیل کی لبنان کے ساتھ واقع سرحد پر شلومی کے علاقے سے تعلق رکھنے والی 50 سالہ سائیکو تھیراپسٹ ہیں ۔ وہ ان تقریباً ایک لاکھ 16 ہزار لوگوں میں سے ایک تھیں جنہوں نے اسرائیل کی ڈیفینس فورسز کے ساتھ اس وقت شمال اور جنوب میں واقع اپنے گھروں سے انخلا کیا جب حماس نےحملے شروع کئے۔
وہ ہنگری میں پیدا ہوئی تھیں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے پہلے چار برس گزارے تھے۔ کیمپ میں آنے سے پہلے وہ اپنے والدین اور گیارہ سالہ بیٹے کے ساتھ بھاگ کر بوڈا پیسٹ گئی تھیں ۔
جھیل کنارے واقع پناہ گزین کیمپ میں آنے کے دو ہفتے بعد کوپولووچ نے کہا کہ انہیں ان دوسرے یہودیوں کے ساتھ رہنے سے سکون مل رہا ہے جو انہی کی طرح اپنے گھر بار چھوڑنے کا مشترکہ تجربہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب ایک جیسےحالات کا شکار ہوئے ہیں اس لیے ایک دوسرے کو اس طرح سمجھتے ہیں جسے وہ لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے جو ہمارے جیسے حالات کا شکار نہ ہوئے ہوں۔ہم سب بہت سی مشکلات سے گزرے ہیں ۔
در حقیقت کیمپ کے بہت سے موجودہ رہائشی یہاں آنے سے پہلے روس کی جنگ کی وجہ سے یوکرین سے بھاگ کر اسرائیل پہنچے تھے ۔
ربی ماسکووچ نے مشرقی یوکرین کے اپنے آبائی قصبے کو اس وقت چھوڑا تھا جب روس نے ایک بھر پور حملہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نقل مکانی کے ان کے سابق تجربات نے انہیں یہاں ان لوگوں کی بہتر خدمت کرنے میں مدد کی ہے جنہوں نے کیمپ میں پناہ تلاش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "مجھے ان کی ضروریات کا علم ہے۔ میں ان کی ضروریات کو محسوس کر تا ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ جنگ سے بھاگنا کیسا ہوتا ہے ۔"
انہوں نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے کہ یہ یہودیوں کا ایک معروف پناہ گزین کیمپ بن گیا ہے ۔ میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ 21ویں صدی کے یورپ میں اس کی ضرورت پڑے گی ۔
ماسکو وچ نے کہا کہ اگرچہ کیمپ میں رہنے والے کچھ خاندان پہلے ہی اسرائیل واپس جا چکے ہیں ، تاہم بہت سوں کا جنگ کے خاتمے کے انتظار کے لیے اگلے چند ماہ یہاں ٹھہرنے کا اردہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ "ہمیں امید ہے کہ یوکرین، اور اسرائیل اور دنیا میں امن ہوگا ۔ لوگ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ لوگ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ کسی کوجنگ میں دلچسپی نہیں ہے۔"
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم