رسائی کے لنکس

ابصار عالم پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج، انسانی حقوق اور صحافی تنظیموں کی مذمت


ابصار عالم (فائل فوٹو)
ابصار عالم (فائل فوٹو)

اسلام آباد پولیس نے معروف صحافی اور سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم پر مبینہ قاتلانہ حملے کے الزام میں نامعلوم شخص کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ملوث ملزم کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق ابصار عالم منگل کی شام سیکٹر ایف الیون میں اپنے گھر کے باہر واک کر رہے تھے کہ اچانک ایک نامعلوم حملہ آور نے ان پر پستول سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک گولی ان کی کمر پر لگی۔

ابصار عالم کو زخمی حالت میں اسلام آباد کے ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز کے مطابق اُن کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ایس ایس پی انوسٹی گیشن کی سربراہی میں خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس نے جائے وقوع کا دورہ بھی کیا ہے۔

سینئر صحافی ابصار عالم کا شمار پاکستان میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ناقدین میں ہوتا ہے۔ حال ہی میں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے پر تشدد مظاہروں کے دوران اُنہوں نے ایک ٹوئٹ میں 2018 میں بطور چیئرمین پیمرا اُن پر ریاستی اداروں کے دباؤ کا تذکرہ کیا تھا۔

ابصار عالم سوشل میڈیا پر خاصے متحرک ہیں اور ریاستی اداروں کی سیاست میں مبینہ مداخلت سے متعلق ٹوئٹس پر پاکستان کی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے اُنہیں طلب بھی کیا تھا۔

صحافی تنظیمیں، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے ابصار عالم پر قاتلانہ حملے کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بھی ابصار عالم پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

تنظیم کے ایشیا پروگرام کے سربراہ اسٹیون بٹلر نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان اور اُن کے سہولت کاروں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے بھی ابصار عالم پر حملے کی مذمت کی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی ابصار عالم پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آزادیٔ اظہار رائے پر ایک اور حملہ ہے۔

XS
SM
MD
LG