رسائی کے لنکس

سندھ میں صحافی قتل، صوبائی حکومت کی پولیس پر تنقید


نوشہرو فیروز کے شہر محراب پور میں ایک نہر سے ملنے والی لاش سندھی روزنامے کے مقامی رپورٹر کی تھی
نوشہرو فیروز کے شہر محراب پور میں ایک نہر سے ملنے والی لاش سندھی روزنامے کے مقامی رپورٹر کی تھی

پاکستان میں ایک صحافی کے قتل پر صحافتی تنظیموں نے شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے شہر محراب پور میں ایک نہر سے ملنے والی لاش سندھی روزنامے کاوش کے مقامی رپورٹر عزیز میمن کی تھی جنہیں مبینہ طور پر گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق عزیز میمن ایک تقریب میں شرکت کے لیے ضلع خیر پور گئے تھے جہاں سے واپسی پر انہیں قتل کرکے لاش نہر میں پھینکی گئی۔

عزیز میمن کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد انہیں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔ عزیز میمن کے قریبی دوست اور محراب پور میں صحافی اخلاق جوکھیو نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پولیس کی جانب سے اب تک کیس میں حدود کا تنازع چل رہا ہے۔ جب کہ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی موت کی وجہ اور وقت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

ان کے بقول ابتدائی رپورٹ میں گلا گھونٹنے کے نشانات کے بارے میں کوئی چیز واضح نہیں کی گئی۔ مقتول کےجسم پر تشدد کے نشانات بھی نہیں پائے گئے۔

اخلاق جوکھیو کے مطابق ان کے دوست بہترین صحافی تھے جو سیاست، انسانی حقوق اور اپنے علاقے میں عوام کو درپیش مسائل پر رپورٹنگ کرتے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ عزیز میمن کو کسی قسم کی دھمکیاں نہیں مل رہی تھیں۔ البتہ مارچ 2019 میں ایک رپورٹ پر انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی تھیں۔

اخلاق جوکھیو نے مزید کہا کہ عزیز میمن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ٹرین مارچ کے دوران محراب پور میں استقبال کے لیے آنے والوں کو کرائے پر لایا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق استقبال کے لیے آنے والوں سے فی شخص دو ہزار روپے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن انہیں 200 روپے دیے گئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس رپورٹ پر عزیز میمن کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عزیز میمن دھمکیاں دینے والوں کے خلاف شکایات لے کر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بھی گئے تھے اور وہاں اعلیٰ حکام اور شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں لیکن ان کی فریاد نہ سنی گئی۔ اس پر انہوں نے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا تھا لیکن ان کے خدشات کے باوجود بھی انہیں تحفظ نہ مل سکا۔

اخلاق جوکھیو نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ 11 ماہ قبل ہونے والا واقعہ ان کے دوست کے قتل کا سبب ہو سکتا ہے لیکن ان کے مطابق وہ قوم پرست نظریات سے بھی کافی متاثر تھے۔ اس لیے ان کے قتل کی کثیر الجہتی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس کیس کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

صحافی تنظیموں کی مذمت

دو بچوں کے والد 56 سالہ عزیز میمن گزشتہ 30 سال سے صحافت کر رہے تھے۔ ملکی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں نے عزیز میمن کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور واقعے میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے قتل کا ذمہ دار ضلعی اور صوبائی پولیس کو قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

یونین نے سندھ حکومت سے قاتلوں اور قتل میں معاونت کرنے والوں کو فوری گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

عزیز میمن کے قتل پر صحافیوں کی انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کے جنرل سیکریٹری انتھونی بیلنگر نے بھی ایک بیان میں قتل کی مذمت کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومتی اتھارٹیز کو آگاہ کرنے کے باوجود عزیز میمن کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا گیا۔

فیڈریشن نے قتل کی آزادنہ تحقیقات اور مقتول کو تحفظ دینے میں ناکامی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ادھر سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی جانب سے بھی قتل کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے ٹوئٹر پر بیان میں قتل پر سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ 48 گھنٹوں کے دوران ایک خاتون ایم پی اے اور صحافی کو قتل کردیا گیا۔ شہریوں کو ہاف فرائی (جان بوجھ کر زخمی کرنے) اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود تحریکِ انصاف کے مطابق انسپکٹر جنرل سندھ کی کارکردگی بہت بہتر ہے۔

واضح رہے کہ 2019 کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو صحافیوں کے لیے ایشیا پیسیفک ریجن میں دوسرا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔

کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران سات صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ 15 زخمی بھی ہوئے۔

اسی طرح پانچ درجن کے قریب صحافیوں پر انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے جب کہ ایک صحافی کو مبینہ طور پر ممنوع تحریری مواد رکھنے کے جرم میں سزا بھی سنائی گئی۔

اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں بڑھنے کے باعث ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں سے 142 ویں نمبر پر ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG