اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے اہلِ خانہ کے ٹیکس ریکارڈ لیک کرنے کے الزام میں لاہور سے گرفتار کیے گئے صحافی شاہد اسلم کو دو روزہ ریمانڈ پر وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کر دیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل'بول نیوز' سے وابستہ صحافی کو جمعے کی شب لاہور سے حراست میں لے کر اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں اُنہیں ہفتے کی صبح عدالت میں پیش کیا گیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا شاہد اسلم پر الزام ہے کہ اُنہوں نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے اہلِ خانہ کے ٹیکس ریکارڈ لیک کر کے انہیں بیرونِ ملک مقیم صحافی احمد نورانی کو بھیجا۔
خیال رہے کہ احمد نورانی تحقیقاتی جریدے 'فیکٹ فوکس'' سے منسلک ہیں اور گزشتہ برس نومبر میں اُنہوں نے اس وقت کےحاضر سروس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہلِ خانہ کے ٹیکس ریٹرن اور ان کی دولت میں مبینہ اضافے کی ایک رپورٹ شائع کی تھی۔
احمد نورانی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ آرمی چیف کے چھ سالہ دور کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہلِ خانہ کے اثاثوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس رپورٹ کی تردید کی تھی۔
لیکن وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے یہ خفیہ معلومات لیک کرنے کی تحقیقات کر کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق ہفتے کو ایف آئی اے نے شاہد اسلم کو جج عمر شبیر کی عدالت میں پیش کیا اور موؐقف اختیار کیا کہ کل شاہداسلم کو گرفتار کیا گیا ، احمد نورانی کو شاہد اسلم انفارمیشن دے رہے تھے۔
استٖغاثہ نے عدالت سے استدعا کی کہ شاہد اسلم سے مزید تفتیش کرنی ہے، لہذٰا انہیں ایک ہفتے کے جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا جائے۔
اس موقع پر صحافی شاہد اسلم نے عدالت کو بتایا کہ وہ کافی عرصے سے ایف آئی اے کور کر رہے ہیں اور بطور صحافی وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے آگاہ ہیں۔ میں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں اور نہ ہی سابق آرمی چیف سے متعلق کوئی معلومات کسی کو فراہم کی ہیں۔
شاہد اسلم نے بتایا کہ وہ انٹرنیشنل میڈیا کے لیے بھی کام کر چکے ہیں اور عزت دار انسان ہیں۔
ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے 24 گھنٹوں سے شاہد اسلم کو گرفتار کیا ہوا ہے۔ کیا ایف آئی اے انفارمیشن کا سورس جاننے کے لیے ریمانڈ لینا چاہتی ہے؟
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس کے علاوہ کوئی اور وجہ ہے تو ہمیں بتایا جائے تاکہ ہم دلائل دے سکیں۔
اس پر پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ شاہد اسلم کے وارنٹ گرفتاری موصول ہوئے ہیں جب کہ ملزم لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی فراہم نہیں کر رہا۔ شاہد اسلم نے جرم میں معاونت کرنے کا کام کیا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد صحافی شاہد اسلم کو دو روزہ ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
شاہد اسلم کی گرفتاری کیسے ہوئی؟
صحافی شاہد اسلم کے خاندانی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کا تعلق گوجرانولہ سے ہے جب کہ وہ اپنی ملازمت کے باعث لاہور میں مقیم تھے۔ اُنہیں جمعے کی شب ایف آئی اے اسلام آباد کی ٹیم نے ایف آئی اے لاہور کی ٹیم کے ساتھ مل کر مغل پورہ سے حراست میں لیا۔
شاہد اسلم ٹی وی بول نیوز سے وابستہ رہنے کے علاوہ بطور فری لانسر برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی اُردو کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں۔
لاہور کے سینئر صحافی بابر ڈوگر بتاتے ہیں کہ وہ شاہد اسلم کو 2010 سے جانتے ہیں جب اُنہوں نے بطور انٹرن انگریزی اخبار ' دی نیوز' میں کام شروع کیا تھا۔ وہ ایک محنتی اور اچھی شہرت کے حامل صحافی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بابر ڈوگر کا کہنا تھا کہ تمام صحافی حکومت کی جانب سے متعین کردہ قواعد کے مطابق معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ ایسا ہی کام شاہد اسلم نے کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے کبھی تحریری طور پر کسی کو آگاہ نہیں کیا کہ کس قسم کی خبریں نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔