افغانستان میں ہفتے کے روز پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے۔ انتخابات میں کل 2450 امیدواروں نے حصہ لیا جبکہ پارلیمان کی نشستوں کی تعداد 250 ہے۔ انتخابات کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔
افغانستان ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر نیوز، انیس الرحمان نے کابل سے 'وائس آف امریکہ' کی اردو سروس کے پروگرام 'جہاں رنگ' میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ووٹر 'ٹرن آوٹ' بہت اچھا رہا اور لوگ تشدد اور دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر بڑی تعداد میں ووٹ دینے کے لئے گھروں سے باہر نکلے۔
انیس الرحمان کہتے ہیں کہ انتخابی مہم مثبت رہی اور جنگ سے تباہ حال ملک کے لئے یہ ایک بڑا تجربہ تھا۔
جرمنی سے ڈاکٹر حسین یاسا نے بھی ووٹر 'ٹرن آوٹ' کو سراہتے ہوئے کچھ انتظامی امور کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اس بڑے پیمانے پر کام کرنے کے لئے مزید تربیت اور صلاحیتوں میں اضافے کی ضرورت ہے اور بین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ وہ الیکشن کمیشن کو انتظامی امور میں مدد فراہم کرے، تاکہ وہ صدارتی انتخاب کے لئے بہتر طور پر تیار ہو۔
امریکہ سے تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم یوسفزئی کا کہنا تھا کہ افغانستان ابھی بھی حالت جنگ میں ہے اور موجودہ انتخابی عمل نسبتاً نیا ہے اور جیسے جیسے جمہوری عمل آگے بڑھے گا تو تجربے کے ساتھ ساتھ صورتحال بہتر ہوتی جائے گی۔ اور آئندہ صدارتی انتخاب میں کارکردگی بہتر ہو سکے گی۔
انہوں نے خاص طور پر 'بایو میٹرک' نظام کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا ذکر کیا۔
انیس الرحمان کا کہنا تھا کی صدارتی انتخاب بہت اہم ہے اور طالبان کو بھی اس میں حصہ لینا چاہئے، تاکہ معلوم ہو سکے کہ افغانستان ایک نئی طرز حکومت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کی آرا پر مبنی رپورٹ تیار کی ہے بہجت جیلانی نے۔ ابتدا کرتے ہیں انیس الرحمان سے جو ٹرن آوٹ کے بارے میں بتا رہے ہیں (تفصیل منسلک آڈیو میں سنئیے):