تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چوٹی کی قیادت کے خلاف مقدمات اور سزائیں اور ان کے حامیوں کی طرف سے ہلکا پھلکا رد عمل، ظاہر کرتا ہے کہ عوام کو احتساب کے عمل پر خوشی ہے۔ اور یہ کہ اگر عمران خان حکومت ان حالات میں معیشت کے میدان میں بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوتی ہے، تو ترکی کے راہنما طیب ایردوان کی طرح تحریک انصاف بھی ملک میں طویل عرصے تک اقتدار میں رہ سکتی ہے اور ملک میں یک فریقی نظام کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔
پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار پروفیسر ہما بقائی نے کہا کہ نیب عدالت کے فیصلے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سزا سنا دی گئی ہے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے عدالت میں سابق صدر آصف علی زرداری کو مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کا مرتکب قرار دیا ہے۔ دونوں جماعتیں براہ راست الزامات کا جواب دینے کے بجائے تحریک انصاف اور اداروں پر جوابی الزامات عائد کر رہے ہیں۔ یہ سیاسی بحث اپنی جگہ لیکن دیکھنےمیں یہ آیا ہے کہ لوگ اس جوابدہی پر خوش ہیں۔
ہما بقائی کے بقول، ’’میں نے لوگوں کو ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے دیکھا ہے۔ جو باتیں زبان زد عام تھیں، وہ جب عدالتوں میں شواہد کی صورت میں لائی جا رہی ہیں، تو لوگوں کو بھروسہ ہونے لگا ہے کہ اس بار احتساب کا عمل کمپرومائز نہیں ہوگا‘‘۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ ’’نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے حامی سڑکوں پر آنے سے گریزاں ہیں اور قیادت ان کو تحریک دلانے میں ناکام ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ’’یہ پارٹیاں عوام کو موبلائز نہیں کر پا رہیں۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کریں گے اور ’ان ہاؤس‘ تبدیلی کی کوشش کریں گے۔ لوگ کم از کم کرپشن کے معاملات پر سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں‘‘۔
عمران احمد کالم نگار ہیں اور ڈان اخبار کے لیے لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’احتساب کے نعرے اور کرپشن کے الزام نئے نہیں۔ نواز شریف کی پہلی اور دوسری حکومت کو بھی کرپشن کے الزامات پر فارغ کیا گیا۔ لیکن کچھ ثابت نہیں کیا جا سکا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو کرپشن کے الزامات پر فارغ کیا گیا مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ جنرل مشرف نے بھی احتساب کا نعرہ لگایا اور اس سے پہلے جنرل ضیا نے بھی۔ مگر یہاں احتساب محض نعروں تک محدود رہا ہے‘‘۔
عمران احمد کے بقول، ’’عمران خان حکومت بھی احتساب کے معاملے میں دوسروں سے مختلف ثابت نہ ہوگی۔ اس جماعت کے اندر بھی ایسے لوگ ہیں جن کے اطوار دیگر پارٹیوں کے راہنماوں سے مختلف نہیں ہیں‘‘۔
ان کے بقول، ’’عمران خان بذات خود بھی اپنے بہت سے نعروں اور وعدوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور کمپرومائز کرتے جا رہے ہیں‘‘۔
فیاض ولانہ سینئر صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’عمران خان یکسوئی سے بدعنوانی اور احتساب کے نعرے کے ساتھ جڑے ہیں۔ یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ وہ اس پر کوئی کمپرومائز کر لیں گے‘‘۔ البتہ، ان کے بقول ’’خان صاحب کو کچھ بولنے سے پہلے تولنے کی عادت ڈالنی چاہیے اور ایسی بات کہیں جس سے پیچھے نہ ہٹنا پڑے‘‘۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ اگر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مقدمات ثابت ہو جاتے ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت ملکی معیشت کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو انہیں حیرت نہ ہوگی کہ ترکی کے راہنما طیب ایردوان کی طرز پر عمران خان اور ان کی جماعت لمبے عرصے کے لیے حکومت کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
بقول اُن کے، ’’مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ ملک سنگل پارٹی سسٹم کی طرف جا رہا ہے‘‘۔
کیا ایسا کچھ عوام کی طرف سے پذیرائی کے بعد ہونے کا امکان ہے یا اس میں ریاستی بندوبست کا عمل دخل ضروری ہے؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر ہما بقائی نے کہا اس وقت ملک کی اسٹیبلشمنٹ بھی چاہتی ہے کہ معاشی نظم بہتر ہو۔ کرپشن نہ ہو۔ عمران خان کا بھی یہی ایجنڈا ہے۔ اور اس ایجنڈے کو عوام بھی سپورٹ کرتی ہے۔ عوام یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ بھی ہو، عمران خان بدعنوان نہیں ہیں‘‘۔
عمران احمد کہتے ہیں کہ ’’یہ بات اصولی طور پر تو درست ہو سکتی ہے۔ لیکن، عمران خان حکومت کے لیے معیشت کو درست کرنا اور باقی معاملات میں بہتری لانا اتنا آسان نہ ہوگا‘‘۔
فیاض ولانہ کے بقول، ’’بالکل ایسا ممکن ہے کہ عمران خان اگر ملک کو اچھی سمت میں لے جاتے ہیں تو ان کا حق ہے کہ طویل مدت کے لیے حکومت کریں۔ لیکن، یہ حق عوام کے ووٹوں سے ہی ملنا چاہیے۔ اس کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ یا حمایت قابل قبول نہ ہوگی۔ ترک ماڈل کی پاکستان کو ضرورت نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو برابر میدان ملنا چاہے اور پھر عوام جسے چاہیں اقتدار دیں بھلے ایک بار سے مدت کے لیے‘‘۔
تفصیل کے آڈیو رپورٹ سنئیے: