رسائی کے لنکس

پیپلز پارٹی کے لیے عدالتی رعایت ممکن نہیں: تجزیہ کار


پی پی پی کے شریک چئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے حالیہ جلسوں میں عدلیہ پر تنقید کی ہے۔
پی پی پی کے شریک چئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے حالیہ جلسوں میں عدلیہ پر تنقید کی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ سے متعلق عدالت میں زیر سماعت کیسوں کے حوالے سے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے لئے سال دو ہزار انیس اچھا نہیں ہو گا۔ شاید اِس بات کا اندازہ خود پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی ہوگیا ہے۔ اس لئے چند دن پہلے انہوں نے صوبہ سندھ کے شہروں حیدر آباد اور ٹنڈو الہ یار میں دو جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کی نوکری تین سال کے لئے ہوتی ہے اُن کو قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے کا کیا حق ہے۔

تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور پیپلزپارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ وفاق کی زنجیر بھی ہے۔ سلیم بخاری کہتے ہیں کہ جعلی اکاؤنٹس کیس کا جو بھی فیصلہ آئے گا اس سے پاکستان کی سیاست میں جو آج پولرائزیشن دیکھی جا رہی ہے وہ بڑھے گی۔ ایسے لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں سیاسی منظر نامہ اور بھی تکلیف دہ ہو جائے گا۔

“اگر زرداری صاحب کسی بھی ایسے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں جیل جائینگے تو اُنکے بعد متبادل قیادت کیا ہو گی کیونکہ بلاول کو بھی اسی کیس میں عدالت میں طلب کیا جا چکا ہے۔ سنا یہ جا رہا ہے کہ شاید صنم بھٹو کو پاکستانی سیاست میں دوبارہ لایا جائے گا کیونکہ پیپلز پارٹی کو انٹیکٹ رکھنے کے لیے اور اُس کا مثبت چہرہ سامنے لانے کے لیے کسی بھی اصلی بھٹو کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔ جیسے جیسے کیس آگے بڑہے کا پیپلز پارٹی اور پاکستان کی سیاست پر گھمبیر اثرات پڑینگے”۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی ڈر کر میدان نہیں چھوڑے گی بلکہ حالات کا مقابلہ کرے گی۔ ہماری جماعت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اگر ایسا کیا گیا تو کارکن اور عوام سڑکوں پر ہوں گے۔

کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصطفی نواز کھوکھر نے الزام عائد کیا کہ ان کی جماعت اور اپوزیشن کے خلاف سلیکٹڈ احتساب کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ان کی قیادت پر بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔

مصطفی نواز کھوکھر نے الزام عائد کیا کہ پاکستان تحریک انصاف ملک میں ون پارٹی سسٹم چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت کو مضبوط کیا جا رہا ہے جبکہ اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسا احتساب کا نظام ہے جس میں محض اپوزیشن ہی نشانے پر ہے، وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری، وزیر دفاع پرویزخٹک اور وزیراعظم کی بہن علیمہ خان کا احتساب کیوں نہیں کیا جا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق وزرائے اعظم کے خلاف تو مقدمات تیزی سے چلائے جارہے ہیں مگر سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کیس عرصے سے زیر التوا ہے اور اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔

پاکستان تحریک انصاف کی رکن پنجاب اسمبلی عائشہ نواز چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے پاکستان میں منی لانڈرنگ کے مسئلے کو بار بار اٹھایا۔ جب تک منی لانڈرنگ کو نہیں روکا جائے گا خصوصی طور پر سیاستدانوں کے پیسوں کو اسٹریم لائن نہیں کرینگے تب تک پاکستانی سیاست میں صحیح احتساب نہیں شروع ہو سکتا۔

“حیران کن بات ہے کہ ن لیگ کی سیاست میں انکا لیڈر جیل چلا جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، پیپلز پارٹی کی منی لانڈرنگ بھی ثابت ہو جاتی ہے تو اُن کی سیاست کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن عوام کو پتا چلنے کی ضرورت ہے کہ اصل میں جو لوگ حکمران بن کر انکے اوپر بیٹھے رہے ہیں وہ عوام کا خون چوس کر عوام کی خدمت نہیں کر رہے تھے وہ اصل میں اپنی خدمت کر رہے تھے، اپنے اکاؤنٹس بھر رہے تھے۔ اپنے خاندانوں کی خدمت کر رہے تھے”۔

پیپلز پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف خان کھوسہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پیپلزپارٹی کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اُنکی قیادت کا اِس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ عدالتی فیصلہ اُن کی قیادت کے حق میں آئے گا اور پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر عوام میں سرخرو ہو گی۔

“اس میں ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے کہ جو ٹریل آج دکھا رہے تھے کہ کنٹریکٹرز کے پیسے اس طرف گئے، بحریہ کے یہاں گئے اور فلاں کے وہاں گئے۔ اُس سے زرداری گروپ کا کیا تعلق ہے۔ زرداری صاحب کا اُس میں کوئی کنکشن نہیں ہے”۔

جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بڑے خانچے ہیں اور وہ معاف نہیں کرینگے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG