سندھ پولیس نے سیہون شریف میں تعینات سول جج کے خلاف مبینہ زیادتی کا مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ خاتون کا الزام ہے کہ جوڈیشل افسر نے انھیں اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا جب وہ ان کے چیمبر میں بیان ریکارڈ کرانے کے لئے طلب کی گئی تھیں۔
تفصیلات کے مطابق، یہ واقعہ 13 جنوری کو اس وقت پیش آیا جب پولیس نے سیہون میں موجود گیسٹ ہاؤس سے ایک جوڑے کو گرفتار کرکے سول جج کے سامنے پیش کیا۔ جوڑے نے بتایا کہ وہ گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کرنے کے لئے گھر چھوڑ کر بھاگے تھے۔
لڑکی کے بیان کے مطابق، جج نے انھیں اپنے چیمبر میں بیان ریکارڈ کرانے کے لئے بلایا اور اس دوران پولیس اور اسٹاف کو کمرے سے نکل جانے کا حکم دیا، جس کے بعد اس پر مجرمانہ نیت سے حملہ کیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ بقول ان کے، جج نے دھمکی دی کہ واقعے کا کسی سے ذکر نہ کیا جائے ورنہ سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تاہم، لڑکی نے واقعہ اپنے شوہر کو سنایا، جس پر دونوں نے پولیس کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا۔ لیکن، پولیس نے فوری طور پر ایف آئی آر رجسٹرڈ نہیں کی۔
ادھر، واقعے پر میڈیا رپورٹس سامنے آنے کے بعد 18 جنوری کو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ امتیاز حسین بھٹو کو بے ضابطگی کے الزام میں معطل کرتے ہوئے فوری طور پر ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔ تاہم، ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں پولیس کی جانب سے مسلسل تاخیر کے بعد مقدمہ بدھ کو، یعنی واقعے کے تقریباً نو روز بعد درج کیا گیا ہے۔
مقدمے کے اندراج میں تاخیر: "کئی شواہد ضائع ہونے کا خدشہ‘‘
سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر اور معروف وکیل ضیا الحق ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اس واقعے پر پولیس کی جانب سے مبینہ مسلسل تاخیری حربے استعمال کرنے سے مقدمے سے جڑے کئی اہم ترین شواہد ضائع ہوجانے کے خدشات ہیں، جس کا براہ راست فائدہ ملزم کو پہنچ سکتا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ اس واقعے سے عوام کی نظر میں عدلیہ جیسے ادارے کا تقدس پامال ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے، اس معاملے کی فوری اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور ذمہ دار کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقدمے کے اندراج میں تاخیر کے ساتھ واقعے میں ملوث جوڈیشل افسر کو محض معطل کر دینا کافی نہیں تھا۔ یہ قانون کے راستے میں رکاوٹ اور "آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے"۔
خواتین کے خلاف جرائم پر قابو نہیں پایا جا رہا: عہدیدار انسانی حقوق کمیشن
انسانی حقوق کی کارکن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی عہدیدار زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ملک میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات کی نشاندہی کرتا ہے، جو نئے قوانین بنانے کے باوجود تھم نہیں رہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’’اگر انصاف کے متلاشی انصاف کے اداروں میں یوں درندگی کا شکار ہوں گے، تو عوام کس پر اعتماد کریں گے؟ اس لئے، اس واقعے کو ایک ٹیسٹ کیس بنا کر فوری انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے‘‘۔
سندھ ہائیکورٹ نے خواتین سے زیادتی کے مقدمات میں متاثرہ خواتین کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لئے ویڈیو کانفرنسگ کے ذریعے بیان ریکارڈ کرنے، انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے، تحقیقات کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کو لازم قرار دینے اور دیگر جدید طریقہ کار اختیار کرنے کے علاوہ متعلقہ قوانین میں تبدیلی کا بھی حکم دے رکھا ہے۔ لیکن، اس حوالے سے کئی ماہ گزر جانے پر بھی صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مؤثر قانونی سازی نہ ہونے کے باعث ملزمان ایسے الزام سے باآسانی بری ہو جاتے ہیں۔
سندھ پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق، سال 2017 میں صوبے میں ریپ کے 230 جبکہ گینگ ریپ کے 60 مقدمات درج ہوئے۔ اسی طرح 2018 میں بھی ریپ کے 325 جبکہ اجتماعی زیادتی کے 63 مقدمات درج کئے گئے۔
ماہرین کی جانب سے نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر میں ایسے واقعات اور بالخصوص بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔