قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور شورش زدہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
اس 17 رکنی کمیٹی کو حالات کا جائزہ لینے کے بعد حقائق اور اپنی سفارشات پر مبنی رپورٹ دو ماہ میں ایوان میں پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
رواں ماہ قومی اسمبلی میں کراچی اور بلوچستان میں بد امنی پر تفصیلی بحث کے بعد ایوان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ دیرپا امن قیام کے لیے ان مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی تجویز پر عمل درآمد کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں حزب اقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کے ممبران پر مشتمل یہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔
پارلیمانی کمیٹی میں پیپلزپارٹی کے پانچ ، حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے چار، مسلم لیگ (ق) کے تین ، متحدہ قومی موومنٹ کے دو جب کہ عوامی نیشنل پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام اور فنکشنل لیگ کا ایک ایک رکن اسمبلی اس کمیٹی میں شامل ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کراچی اور کوئٹہ کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے مقامی آبادی سے معلومات اکٹھی کرنے کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے صورت حال سے متعلق بریفنگ بھی لیں گے۔ کمیٹی اُن عوامل کاجائزہ بھی لے گی جو کراچی اور بلوچستان میں حالیہ پرتشدد واقعات کا باعث بنے ۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اتوار کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ حکومت کراچی اور بلوچستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ حکومت کراچی میں صورت حال پر قابو پانے کے لیے فوج کو استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ ”فوج کی بھی یہ خواہش نہیں ہے کہ وہ مسئلے میں آ کر ملوث ہو۔ ہماری اولین ترجیح ہے کہ پولیس اور رینجرز کی مدد سے صورت حال کو کنٹرول کریں جو مستقل حل ہونا چاہیئے۔ “
دریں اثنا کراچی میں ہونے والے حالیہ پرتشدد واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف نیم فوجی سکیورٹی فورس رینجرز کی کارروائیاں جاری ہیں اور اتوار کو بھی شہر کے ایک کشیدہ علاقے لیاری میں گھر گھر تلاشی کا سلسلہ جاری رہا۔
سپریم کورٹ نے ملک کے اقتصادی مرکز میں خونریز بدامنی کا ازخود نوٹس لے رکھا ہے جب کہ صوبائی حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ایک ماہ کے دوران 306 افراد کو ہلاک کیا گیا۔