دریائے سندھ، کراچی سے170 کلومیٹر کی دوری پر انڈس ڈیلٹا میں بحیرہ عرب سے جا ملتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پانی کی بڑھتی ہوئی سطح نے لوگوں کو اپنے مکانات یا گھر زمین سے کئی کئی فٹ بلندی پر بنانے پر مجبور کر دیا ہے۔
انڈس ڈیلٹا کے قریب واقع صدیق ڈابلو ولیج کے باسی کئی طوفانوں کا سامنا بہادری سے کرتے آئے ہیں۔ علاقے میں آنے والے طوفانوں کے بعد سمندر ان کی زمین کا بڑا ٹکڑا کھا جاتا ہے۔
متعدد طوفانوں کے بعد بالآخر ولیج کے باسیوں کو ان کی مشکل کا حل مل گیا اور اب وہ اپنے گھر لکڑی کے پلیٹ فارم پر بناتے ہیں، تاکہ سیلابی ریلوں اور طوفانوں سے اپنی جمع پونجی اور گھریلو ساز و سامان کو محفوظ رکھ سکیں۔
انگریزی اخبار ’ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ورلڈ وائیڈ فنڈ فور نیچر پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف۔پی) نے صدیق ڈابلو ولیج کو ’ماڈل ولیج‘ قرار دیتے ہوئے رہائشیوں کو لکڑی کے پلیٹ فارم تعمیر کرکے دینے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اب تک 10پلیٹ فارم تعمیر کئے جاچکے ہیں جبکہ باقی پر کام جاری ہے۔
مینگرووز اور جھونپڑیوں کے درمیان مقامی رہائشی محمد اکرم کا اونچائی پر بنایا گیا گھر دور سے نظرآتا ہے۔ لکڑی کے پلیٹ فارم پر گھر بنانے پر تقریباً ایک لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پی پلیٹ فارم کی تعمیر کے لئے 70 ہزار روپے فراہم کرتی ہے، جبکہ سیڑھی، ہٹ اور چھت کی تعمیر کے اخراجات گھرکے مالک کو اٹھانے پڑتے ہیں۔
ولیج میں زیادہ تر مچھیرے رہائش پذیر ہیں جو یہ خرچا نہیں اٹھا سکتے۔ لیکن، محمد اکرم ان گنے چنے افراد میں سے ہیں جو اپنا گھر بنانے میں کامیاب رہے۔
محمد اکرم کا کہنا ہے کہ میری حال ہی میں شادی ہوئی ہے اور میں اپنے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہوں۔ علاقے کے زیادہ تر گھر جون 2004 میں آنے والے طوفان ۔۔نانوک۔۔ میں تباہ ہوگئے۔ پورے علاقے میں 10دن تک تین فٹ پانی کھڑا رہا تھا۔
ولیج کے رہائشی مچھیروں کے لئے کسی اور جگہ جا کر بسنا آسان نہیں۔ نمکین پانی کی وجہ سے کھیتی باڑی بھی نہیں کی جا سکتی۔ اسی لئے زندگی گزارنے کے لئے آمدنی کے ذرائع بہت محدود ہیں۔
سکڑتا ہوا ڈیلٹا
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث انڈس ڈیلٹا میں اکثر سمندری طوفان آنے لگے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ کو اوشنیو گرافی کی2007 کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق ڈیلٹا چھ ہزار دو سو اسکوائر کلومیڑ سے گھٹ کر 1200 اسکوائر کلومیٹر رہ گیا۔ سال 1932 سے لے کر1976 تک بننے والے ایک درجن سے زیادہ ڈیمز اور بیراجوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
دریائے سندھ کے اپ اسٹریم میں 50 کلو میڑ تک سمندری پانی آنے سے دنیا کے ساتویں بڑے اور زرخیز ڈیلٹا کو تباہی کے خطرے سے دو چار کر دیا ہے۔
ساحلی علاقوں اورکریکس کے بارے میں 2007میں کئے گئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سروے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ان علاقوں میں گزشتہ 10سالوں میں مچھلی کے شکار میں نمایاں کمی آئی ہے۔
کیٹ فش، پمفرٹ، کروکر، کراکوڈا کا شکار 60فیصدکم ہوگیا جبکہ جنوبی ایشیا کی لذیذ ترین مچھلی ’پلا‘ تو تقریباً ختم ہی ہوگئی ہے۔
سیم و تھور سے بچانے اور انڈس ڈیلٹا کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کے لئے 10 ملین ایکڑ فٹ تازہ پانی کی ضرورت ہے۔ یہ پانی انڈس واٹر معاہدہ1991کے تحت مل سکتا تھا۔ لیکن، تازہ پانی کی زرعی شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر فراہمی کے باعث اس معاہدے کا عملی نفاذ نہیں ہو پایا۔
لکڑی کے پلیٹ فارم پر بننے والے گھر ڈیلٹا میں آباد کمیونٹی کو عارضی طور پر ریلیف فراہم کرنے میں تو کامیاب ہوگئے۔ لیکن، ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلقہ حکام ہنگامی بنیادوں پر انڈس ڈیلٹا کو سکڑنے سے بچانے کے اقدامات کریں۔