کراچی میں ایک پولیس اہل کار نے ایک زخمی ملزم پر فائرنگ کر کے اسے موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ اس دلخراش واقعے کی ویڈیو فوٹیج سامنے آنے کے بعد زخمی ملزمان کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے والے پولیس اہل کار کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے ناظم آباد میں پولیس اور مبینہ ڈاکوؤں کے درمیان اس وقت فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا جب وہ ایک خاندان سے لوٹ مار میں مصروف تھے۔
ڈاکوؤں نے پولیس فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پولیس اہل کار ذیشان شدید زخمی ہو گیا، جب کہ پولیس کی جوابی فائرنگ سے دونوں ڈاکو مارے گئے۔
پولیس کے ہاتھوں مبینہ ڈاکوؤں کی ہلاکت کے بعد ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں زخمی پولیس اہل کار کے ساتھی ایک پولیس اہلکار شاہ میر کو دیکھا جا سکتا ہے کہ اس نے سڑک پر زخمی پڑے ہوئے دونوں مشتبہ ڈاکوؤں کو سر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اور ان کی ہلاکت کا یقین یو جانے کے بعد وہ اپنے زخمی ساتھی اہل کار کو ایمبولینس میں ڈال کر جائے وقوعہ سے روانہ ہو گیا۔
ویڈیو میں کئی ایسے لوگ دیکھے جا سکتے ہیں جن کے سامنے زخمی ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے کی بجائے انہیں ہلاک کرنے کا واقعہ ہوا۔
ایس ایس پی سینٹرل کراچی محمد عارف اسلم راؤ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والے دونوں ڈاکو اس سے قبل بھی شہر کے کئی علاقوں میں وارداتیں کر چکے تھے۔ ان کی شناخت حبیب خان اور عبدالباسط کے نام سے ہوئی ہے۔
ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے ڈاکوؤں سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے جب کہ ان کا ایک ساتھی موقع سے فرار ہو گیا ہے۔
ایس ایس پی کے مطابق مبینہ ڈاکووں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے پولیس اہل کار ذیشان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گیا۔ تاہم پولیس افسر نے شدید زخمی ڈاکووں کے سر کا نشانہ لے کر انہیں ہلاک کرنے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ویڈیو سامنے آنے کے بعد پولیس اہل کار شاہ میر کو گرفتار کر لیا گیا اور اس واقعہ پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
یہ کوئی ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل اپریل میں یونیورسٹی روڈ پر پولیس کی فائرنگ سے 19 ماہ کا احسن مارا گیا تھا۔جس پر آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے معافی بھی مانگتے ہوئے پولیس کی تربیت میں خامیوں کا اعتراف کیا تھا۔
گزشتہ سال 7 سالہ امل پولیس اور ملزمان کی کراس فائرنگ میں پولیس کی گولی کا نشانہ بن گئی تھی۔ اسی طرح پولیس کی اپنی ہی رپورٹ میں جعلی قرار دیے جانے والے پولیس مقابلے میں نقیب اللہ سمیت چار شہری ہلاک ہو گئے تھے جس کی گونج ایک عرصے تک سنائی دیتی رہی تھی اور اس واقعے نے ملک کی سیاست میں بھونچال برپا کر دیا تھا۔
گزشتہ دو سال کے دوران پولیس فائرنگ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے کم ازکم 7 واقعات پیش آ چکے ہیں۔ اگر ان میں جعلی پولیس مقابلے بھی شامل کر لیے جائیں تو یہ تعداد بڑھ کر 11 ہو جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی وجہ پولیس کی ناقص تربیت ہے۔ سیٹیزن پولیس لیژن کمیٹی کے سابق سربراہ جمیل یوسف ایسے واقعات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس جانب کوئی بھی توجہ دینے پر تیار ہی نہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے یوسف جمیل نے کہا کہ ایسے واقعات ہمارے انتظامی اور عدالتی نظام کی ناکامیاں کو عیاں کرتے ہیں۔
ان کے مطابق انصاف کی فراہمی میں بے انتہا رکاوٹیں، سفارش کا کلچر، بھرتیوں میں میرٹ کا نہ ہونا اور تربیت کا فقدان پولیسنگ کے نظام کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی حکمت عملی سرے سے نظر نہیں آتی۔
نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر میں ایسے درجنوں واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں پولیس سمیت دیگر سیکورٹی اداروں کی کارروائیوں میں تربیت کی کمی کا عنصر واضح نظر آتا ہے جن میں ساہیوال میں بچوں کے سامنے والدین کے قتل کا دلخراش واقعہ اور خروٹ آباد میں سیکورٹی اہل کاروں کی بلا سوچے سمجھے فائرنگ سے خواتین سمیت عام شہریوں کی ہلاکت شامل ہیں۔