رسائی کے لنکس

کراچی کی ایک اور فیکٹری میں آگ سے 16 مزدور ہلاک: کیا ہنگامی ایگزٹ نہیں تھا یا فائر بریگیڈ دیر سے پہنچی؟


کیمیکل فیکٹری میں پھنسے ہوئے مزدوروں کو نکالنے کا کام جاری ہے۔ 27 اگست۔ اے پی فوٹو
کیمیکل فیکٹری میں پھنسے ہوئے مزدوروں کو نکالنے کا کام جاری ہے۔ 27 اگست۔ اے پی فوٹو

کراچی کے علاقے کورنگی میں جمعے کے روز فیکٹری میں لگنے والی آگ سے 16 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ہلاکتیں فیکٹری کی عمارت میں محفوظ راستہ نہ ہونے کے باعث ہوئی۔

کراچی کے علاقے دھوبی گھاٹ کے رہائشی 23 سالہ صہیب نے اپنے گھر والوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آئندہ اتوار کو چھٹی کرکے انہیں سمندر گھمانے ضرور لے جائے گا۔ یہ وعدہ کرکے وہ آج بھی معمول کے مطابق کورنگی میں واقع فیکٹری میں اپنے بھائی کے ساتھ روانہ ہوا۔ جہاں وہ 22 ہزار روپے ماہانہ پر ملازمت کرتا تھا۔ اور پھر صبح ہی سے پہلی منزل پر واقع اسٹور پر اپنے کاموں میں لگ گیا۔

صبح دس بجے کے قریب اچانک فیکٹری کی اُسی منزل پر آگ بھڑک اٹھی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ نے تین منزلہ فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صہیب سمیت 25 کے قریب افراد اس وقت جی ایم کیمیکلز میں کام کر رہے تھے۔

آگ بھڑک اٹھنے کے بعد گراونڈ فلور پر کام کرنے والے افراد تو فیکٹری سے نکلنے کے لئے موجود واحد راستے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ پہلی اور دوسری منزل پر موجود افراد آگ سے بچنے کے لئے چھت کی جانب بھاگے۔ مگر وہاں گیٹ پر لگے ہوئے تالے کی وجہ سے وہ چھت پر نہ پہنچ پائے۔

اسی دوران فائر بریگیڈ کو بھی اطلاع کی جا چکی تھی۔ لیکن جب تک فائر بریگیڈ آگ بجھاتی اور لوگوں کو نکالتی اس وقت تک پہلی اور دوسری منزل پر موجود 16 افراد دم گھٹنے یا جل کر ہلاک ہوگئے۔ لاشیں ناقابل شناخت ہونے کی وجہ سے ان میں سے کئی کی شناخت کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوسکا ہے۔

سانحۂ بلدیہ کیس کا فیصلہ، متاثرین کا غم پھر تازہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:31 0:00

واقعے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کو جناح ہسپتال پہنچایا گیا تھا۔ ہسپتال حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سے تمام کی عمریں 18 سے 40 سال کے درمیان ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کا کہنا ہے کہ عمران احمد اپنے 20 سالہ بیٹے سلمان کی موت کے صدمے کے باعث دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔

فیکٹری میں کام کرنے والے عارف کی والدہ سلمہ بی بی کو جب اطلاع ملی کہ اس کا بیٹے کی فیکٹری میں آگ لگی ہے تو وہ دوڑی دوڑی فیکٹری کے باہر ہی آگئیں۔ انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا، انہیں اندر جانے کی اجازت دی جائے لیکن انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کا تو ایک بیٹا بھی سو کے برابر تھا، میں کہاں جاوں، کیا کروں گی، میں تو اپنے بیٹے کے بغیر ایک پل نہیں گزار سکتی۔

اس واقع میں ہلاک ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے پانچ لوگ بھی شامل ہیں۔ جن میں نعمان کے چچا، بہنوئی اور دو سگے بھائی بھی شامل ہیں۔ لیکن شدت غم کی وجہ سے انہیں اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا۔

فیکٹری میں کام کرنے والے ایک شخص ارسلان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فیکٹری میں کم شدت کی آگ کو بجھانے کے لئے بعض آلات موجود تھے، لیکن شدت زیادہ ہونے کی وجہ سے فائر بریگیڈ کو بلایا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں کئی گھنٹے تاخیر سے پہنچی جس کی وجہ سے آگ نے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

تاہم ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ آگ کی اطلاع صبح دس بج کر نو منٹ پر ملی اور اور دس بج دس منٹ پر فائر بریگیڈ کا عملہ فیکٹری کی جانب روانہ ہوگیا۔ آگ بجھانے کے لئے جو اقدامات ضروری تھے وہ کئے گئے۔ فائر ٹینڈرز، پانی، اسنارکل اور دیگر آلات وہاں پہنچادئیے گئے تھے لیکن بنیادی طور پر اس فیکٹری میں محفوظ راستہ نہیں تھا جس کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں اور نتیجے کے طور پر قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔

فیکٹری کے باہر موجود کئی افراد اس کی ذمہ داری فیکٹری مالکان اور متعلقہ اداروں کو قرار دے رہے تھے جن کے ذمے فیکٹری کی انسپیکشن تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فیکٹری مالکان اس حوالے سے فائر اینڈ سیفٹی کے مناسب انتظامات کرتے اور لیبر ڈپارٹمنٹ سمیت مختلف ذمہ دار ادارے ان اقدامات کو یقینی بناتے تو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جاسکتا تھا۔

کراچی کی ایک کیمیکل فیکٹری میں آگ سے سولہ افراد ہلاک ہوئے
کراچی کی ایک کیمیکل فیکٹری میں آگ سے سولہ افراد ہلاک ہوئے

ادھر ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) کے حکام نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ مہران ٹاون میں قائم یہ فیکٹری رہائشی علاقے میں غیر قانونی طور پر قائم تھی جبکہ اس کی عمارت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے بلڈنگ کوڈز پر بھی پوری نہیں اترتی۔ لیکن اس کے باوجود اس عمارت میں گذشتہ کئی سال سے فیکٹری چلائی جارہی تھی۔ جس میں چمڑے اور دیگر مصنوعات کو رنگنے کے لئے کیمیکلز تیار کئے جاتے تھے۔

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر کورنگی سلیم اللہ اوڈھو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فیکٹری میں آگ شارٹ سرکٹ کے سبب لگی۔ چوکیدار نے پولیس کو بتایا ہے کہ آگ پہلی منزل کے زینے میں لگی۔ جس کے بعد اوپری منزل پر جو مزدور اوپر ہی پھنس کر رہ گئے۔

ڈی سی کورنگی کا کہنا تھا کہ فیکٹری سے ہنگامی حالات کی صورت میں اخراج کا کوئی طریقہ نہیں تھا اور صرف ایک ہی گیٹ موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹری مالک کے خلاف مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ سلیم اوڈھو کے مطابق آگ پر قابو پاکر عمارت کی سرچنگ مکمل کرلی گئی ہے۔

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون کی گارمنٹ فیکٹری کے باہر ایک پولیس اہلکار مستعد کھڑا ہے۔ اس فیکٹری میں آگ سے جھلس کر کئی افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون کی گارمنٹ فیکٹری کے باہر ایک پولیس اہلکار مستعد کھڑا ہے۔ اس فیکٹری میں آگ سے جھلس کر کئی افراد ہلاک ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ ستمبر 2012 میں کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون میں گارمنٹس کی فیکٹری میں لگنے والی خوفناک آگ میں 260 افراد جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔ اگرچہ بعد میں اس واقعے کی تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ آگ حادثہ نہیں بلکہ مجرمانہ فعل کے تحت جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔

بلدیہ ٹاون واقعے کے بعد کراچی شہر میں قائم ہزاروں فیکٹریوں میں حفاظتی انتظامات اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لئے اقدامات نہ ہونے پر کئی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ تاہم اس حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی فیکٹریوں، کارخانوں میں حالات جوں کے توں ہی ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG