کراچی میں منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملک کی صنعتی تاریخ کے بدترین واقعے بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں لگنے والی آگ کو آتش زنی قرار دیتے ہوئے دہشت گردی سے تعبیر کیا۔
آتش زنی کے اس واقعے میں ملوث دو ملزمان کو سزائے موت اور چار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جب کہ دو ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے۔ ملزمان کو مختلف دفعات میں عمر قید، قیدِ با مشقت اور جرمانے کی سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔
دوسری جانب اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ آخر سانحے کا شکار ہونے والی علی انٹرپرائزز نامی اس بدقسمت فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعات سے بچاؤ اور سینکڑوں مزدوروں کی جانوں کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ حفاظتی انتظامات کیوں نہیں تھے؟
'حفاظتی انتظامات ہوتے تو ہمارے بچے نہ مرتے'
سانحہ بلدیہ متاثرین کی تنظیم کی چیئر پرسن سعیدہ خاتون کا مؤقف ہے کہ علی انٹر پرائزز میں مؤثر حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث ان کے پیارے اپنی جان نہ بچا سکے۔
ان کے بقول اگر فیکٹری میں آگ بجھانے کے آلات، اخراج کے ہنگامی راستے اور بلڈنگ لاز، لیبر لاز سمیت دیگر قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا۔ مؤثر فائر بریگیڈ کے ساتھ ساتھ ملازمین کی مناسب تربیت کی جاتی تو شاید اس قدر بڑا حادثہ نہ ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ مختلف ملکی اور غیر ملکی اداروں کی رپورٹس میں بھی فیکٹری میں حفاظتی انتظامات میں کمی کی نشاندہی کی گئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارا دکھ صرف یہ نہیں کہ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے جلا دیا گیا۔ بلکہ دیگر فیکٹریوں میں مستقبل میں ایسے بھیانک واقعات سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی نہیں بنائی گئی ہے۔
'بدترین سانحے سے بھی کچھ نہیں سیکھا گیا'
صرف متاثرین ہی نہیں بلکہ ایسے ہی سوالات مزدوروں کے لیے کام کرنے والے مختلف ادارے، تنظیمیں اور کارکن بھی اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ جن کے مطابق فیکٹریوں اور کارخانوں میں حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
مزرودوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے کہتے ہیں کہ فیکٹری مالکان، حکومتی ادارے اور بین الاقوامی برانڈز آج بھی مزدوروں کو بدترین حالات میں کام کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ریسرچ اینڈ ایجوکیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملکی تاریخ کے اس بدترین سانحے سے آٹھ سال میں بھی کچھ نہ سیکھا گیا اور آج بھی فیکٹریوں اور کارخانوں میں ہیلتھ اور سیفٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے حادثات معمول بنے ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کرامت علی کا کہنا تھا کہ سانحہ بلدیہ کیس کے فیصلے میں بھی عدالت نے ان تمام خامیوں کا احاطہ کیا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ فائر فائٹنگ کا سامان، ایمرجنسی ایگزٹ نہ ہونے کی ذمہ داری کس کے سر ہو گی؟ الیکٹرک ڈیپارٹمنٹ، بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ، لیبر ڈیپارٹمنٹ اور اس طرح کی دیگر صوبائی اور وفاقی حکومت کی ایجنسیوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی جس کا خمیازہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جانوں کی ضیاع کی صورت بھگتنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ جتنا بڑا یہ سانحہ ہے اس کے مطابق کچھ نہیں کیا گیا۔ کسی بھی ادارے نے اپنا کام سنجیدگی سے نہیں کیا اور مؤثر نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے فیکٹریوں میں آئے روز ایسے حادثات معمول ہیں۔
کرامت علی کے مطابق اصل مسئلہ قوانین کی عدم موجودگی کا نہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کا ہے۔
دوسری جانب مزدور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی لیبر قوانین کے مختلف کنونشنز کی توثیق کی ہوئی ہے۔ جب کہ پاکستان کے آئین میں تنظیم سازی کے بنیادی حق کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔
پاکستان میں 95 فی صد سے زائد فیکٹریاں رجسٹرڈ نہیں ہیں: نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور نے بتایا کہ پاکستان نے پورپین یونین سے جی ایس پی پلس کا مقام حاصل کر کے خصوصی مراعات لے کر اپنی مصنوعات کے لیے یورپی منڈیوں تک رسائی کی سہولت حاصل کی ہے اور وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ مزدوروں اور انسانی حقوق کی مکمل پاسدری کرے گا۔
ان کے بقول اسی طرح پاکستان میں گلوبل فریم ورک ایگریمنٹ کے تحت ملبوسات تیار کرانے والے کئی بین الاقوامی برانڈز نے ٹیکسٹائل گارمنٹس میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے لیبر قوانین کے تحت حقوق کی ضمانت دی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے باوجود فیکٹریاں اور کارخانے محنت کشوں کے لیے محفوظ نہیں بنائے گئے۔
ناصر منصور کے مطابق حکومت اور مالکان نے سانحہ بلدیہ فیکٹری سے سبق سیکھ کر مزدوروں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کی بجائے صنعتی اداروں میں مزید خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بھی ملک میں چھ کروڑ 80 لاکھ کی افرادی قوت میں سے ایک فی صد سے بھی کم مزدور، یونین کی صورت میں منظم ہیں۔ جب کہ 95 فی صد سے زائد فیکٹریاں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ صرف پانچ فی صد مزدوروں کے پاس تحریری تقرر نامے ہیں۔ جب کہ بیشتر فیکٹریوں میں غیر قانونی ٹھیکیداری نظام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سماجی تحفظ کے مختلف اداروں میں پانچ فی صد سے بھی کم مزدور رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ یہ حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صنعتی تعلقات کے تمام قوانین اور ان پر عمل درآمد کرانے والے ادارے اپنی افادیت کھو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری مالکان نے ملکی و بین الاقوامی قوانین اور آئینی حقوق کو اعلانیہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس عمل میں مختلف بین الاقوامی برانڈز بھی مجرمانہ غفلت کرتے ہوئے محنت کشوں کو تمام حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔
مزدوروں کے یقینی تحفظ کا بل منظور کیا جا چکا ہے: حکومت
دوسری جانب حکومتِ سندھ کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلی نے 2017 میں اکوپیشنل ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت کارخانوں اور فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ مزدور طبقے کی صحت کو لاحق خطرات کو دور کرنے سے متعلق قانون سازی بھی اس کا حصہ ہے۔ اس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حکومت کے مطابق اس قانون کے تحت آجر مزدوروں کو پیش آنے والے کسی بھی ممکنہ کیمیائی، حیاتیاتی، ریڈیولوجیکل، نفسیاتی یا کسی بھی قسم کے حادثے سے بچاؤ کے لیے مکمل حفاظتی انتظامات کا پابند ہے۔
قانون کے تحت آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ کونسل کا قیام عمل میں لانے کا بھی کہا گیا ہے جس کا کام ان امور پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے اور قید کی سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
مبصرین اور مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اس خیال سے اتفاق کرتے نظر نہیں آتے کہ اس قانون سے بہتری کی توقع ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ قانون کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد پر اب بھی سوالیہ نشان ہے۔
جرمن عدالت میں درخواست مسترد
واضح رہے کہ جرمنی کی ایک عدالت نے بلدیہ فیکٹری میں آتش زنی میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا اور ایک زخمی شخص کی جانب سے کیس دائر کرنے کی درخواست پر معیاد ختم ہونے کے باعث سماعت سے انکار کر دیا تھا۔
دعویٰ دائر کرنے والے پاکستانی شہریوں کا مؤقف تھا کہ جرمن کمپنی 'کے آئی کے' علی انٹرپرائزز سے گارمنٹس خرید کر فروخت کرتی تھی۔ لیکن کمپنی نے فیکٹری میں جان بچانے، آگ بجھانے والے آلات اور حفاظتی انتظامات پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔
دعوے داروں کے مطابق ایسے میں 264 افراد کے جل کر ہلاک ہونے کا الزام جرمن کمپنی پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اس لیے جرمن کمپنی ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو معاوضے کے طور پر 30 ہزار یورو فی شخص ادا کرے۔
بنگلہ دیش اکارڈ کے تحت کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے کا مطالبہ
ماہرین اور مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن بنگلہ دیش میں 24 اپریل 2013 کو رانا پلازہ کے سانحے کے بعد مزدوروں کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے ہونے والے بین الاقوامی معاہدے 'بنگلہ دیش اکارڈ' کا حوالہ دیتے ہیں۔
بنگلہ دیش اکارڈ کے تحت کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے پر زور دیا گیا ہے۔