کراچی میں کرفیو سن 1986-87ء میں آخری مرتبہ سابق وزیراعلیٰ غوث علی شاہ کے دور میں لگا تھا، جب سہراب گوٹھ پر منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن بلو اسٹار کیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے 23/24 سال بعد اب دوبارہ کراچی کے بعض علاقوں میں کرفیو لگا کر آپریشن کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق کرفیولگاکر آپریشن کرنے کا فیصلہ سیکریٹری داخلہ کی زیر صدارت آج ہونے والے اجلاس میں کیا گیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ہلاکتیں ہوئیں ہیں اور جو حساس شمار کئے جاتے ہیں وہاں کرفیو لگاکر شر پسند عناصر کے خلاف آپریشن کیا جائے گا، تاہم وزیر اعلیٰ سندھ کے شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کرفیو کا دورانیہ چند گھنٹوں سے لے کر کئی دنوں تک محیط ہو سکتا ہے۔ آپریشن کا مقصد ناجائز اسلحہ کی برآمدگی ، جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری اور بڑھتے ہوئے ٹارگٹ کلنگز کے واقعات کو روکنا ہے۔
اطلاعات کے مطابق کراچی کے حساس علاقوں میں دفعہ 144 کے تحت کرفیو نافذکیا جاسکتا ہے۔ یہ کارروائی آج شام سے شروع ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ کراچی اور بالخصوص لیاری میں بھتہ مافیا حالات خراب کرنے میں ملوث ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لیاری سے پولیس کو دو نعشیں ملیں جن کی جیب میں بھتہ وصولی کی رسیدیں اور دیگر دستاویزات برآمد ہوئیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ حالات کی خرابی کا الزام ایم کیو ایم اور اے این پی پر عائد ہوتا ہے لیکن اصل چہرے کچھ اور ہیں جو ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر کراچی کے علاقے شیر شاہ کباڑی مارکیٹ سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں گزشتہ چوبیس گھنٹو ں کے دوران نامعلوم افراد کی فائرنگ سے اب تک 40 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔ شیرشاہ کباڑی مارکیٹ میں ہلاکتوں کا مقدمہ بھی تاحال درج نہیں ہوسکا۔
اس سانحہ کے بعد شہر کے مختلف علاقوں گلستان جوہر، ناظم آباد، موسیٰ کالونی، ابو الحسن اصفہانی روڈ، ریڈیو پاکستان، ملیر سعود آباد، پاک کالونی، گارڈن، بلدیہ ٹاوٴن، عزیز آباد، حسین آباد کے علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں اب تک ہلاک ہونیوالوں کی تعداد 40 ہوگئی ہے۔ تازہ ترین واقعے میں قائد آباد میں نالے سے ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔
ملیر پندرہ میں نوجوان کے اغواء کے خلاف ہونے والے مظاہرے کے دوران مشتعل افراد نے متعدد دکانوں اور پتھاروں کو آگ لگادی۔ اس دوران نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا۔ ہنگامہ آرائی کی وجہ سے نیشنل ہائی وے پر ٹریفک معطل ہوگئی۔
لاہور سے آنے والی ٹرین بھی فائرنگ کی زد میں آگئی۔ فائرنگ کے بعد مشتعل افراد نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے لیاہے۔ سانحہ شیر شاہ کے بعد پولیس اور رینجرز نے اسنیپ چیکنگ کا سلسلہ شروع کردیاہے۔
کراچی میں آج ایم کیو ایم کی جانب سے یوم سوگ کے اعلان کی وجہ سے تاجروں نے کاروبار بند رکھا، جبکہ ٹرانسپورٹ اتحاد نے ٹرانسپورٹ بند رکھا۔ شہر کے حالات کے باعث انٹر سٹی بسیں اور گڈز ٹرانسپورٹ نے بھی مکمل طور پر اپنا کاروبار بند رکھا۔
آج شہر بھر کے پرائیویٹ اسکولز بھی بند رہے، جبکہ جامعہ کراچی ،وفاقی اردو یونیورسٹی اور ڈاوٴ میڈیکل یونیورسٹی نے اپنے تمام امتحانات اور ٹیسٹ ملتوی کردیئے ۔
شہر کے مختلف علاقوں میں گزشتہ رات پولیس اوررینجرز نے چھاپے مار کر درجنوں افراد کو گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کرلیا۔ خاموش کالونی میں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے ایک کمپاووٴنڈ پر چھاپہ مار کر موقع پر موجود10سے زائد افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے اسلحہ برآمد کرلیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق گرفتار شدگان کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں جن علاقوں میں پولیس نے چھاپے مارے ان میں بلوچ کالونی ، سعود آباد، صاحب داد گوٹھ ملیر، پرانا گولی مار، ریکسر لین، لیاری اور پاک کالونی اور اطراف کے علاقے شامل ہیں ۔