پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے کراچی کے لیے 1100 ارب روپے کے پیکج کے اعلان کے بعد اب ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ اس پیکج میں وفاقی اور صوبائی حکومت کتنی رقم دے رہی ہے۔
کراچی میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لیے جہاں وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان اتفاقِ رائے کو بڑی کامیابی سے تعبیر کیا جا رہا ہے وہیں وفاق میں برسرِ اقتدار تحریکِ انصاف اور صوبۂ سندھ میں برسرِ اقتدار پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
دونوں جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ 1100 ارب روپے کی خطیر رقم کے پیکج میں ان کی حکومت نے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مشیر اور سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت وزیرِ اعظم کے اعلان سے قبل ہی یہ بتا چکی تھی کہ کراچی میں آئندہ ایک سے پانچ سال کے دوران مختلف منصوبوں کے تحت 750 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے جس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، چینی حکومت، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے آسان قرضوں کی مدد سے مکمل ہونے والے مختلف منصوبے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بحریہ ٹاؤن کیس سے حاصل ہونے والے 125 ارب روپے، جو صوبۂ سندھ کا پیسہ ہے، وہ بھی صوبائی دارالحکومت پر خرچ کرے گی جس سے شہر میں سرمایہ کاری کا کل حجم 802 ارب روپے تک جا پہنچے گا۔
بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے وزیرِ اعظم عمران خان کراچی کے دورے پر آئے تو انہوں نے صحافیوں کے بغیر منفرد پریس کانفرنس سے خطاب کیا تاکہ صحافی سوالات نہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بھی وزیرِ اعظم کے دورے کو بڑی پذیرائی دلوائی گئی۔ لیکن صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ 1100 ارب روپوں میں سے 802 ارب روپے ہمارے ہیں۔
مرتضیٰ وہاب کے بقول وفاقی حکومت کے وزرا اعداد و شمار کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں جن کا حقائق سے کوئی واسطہ نہیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان کے بقول وفاقی حکومت کراچی سرکلر ریلوے کی فنڈنگ کو اپنے کھاتے میں ڈال رہی ہے جب کہ سرکلر ریلوے تین دسمبر 2016 سے چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کا حصہ ہے اور وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حصہ سندھ حکومت کی کوششوں سے بنا تھا۔
وفاقی حکومت کا مؤقف
صوبائی حکومت کے ترجمان کے اس دعوے پر وفاقی حکومت نے بھی وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'کراچی ٹرانسفارمیشن پلان' کے تحت وفاق کی جانب سے کل 736 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے جو اعلان کردہ رقم کا تقریباً 66 فی صد بنتا ہے۔
وفاقی حکومت کے مطابق کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے 46 ارب روپے، سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے 300 ارب روپے، ریلوے فریٹ کوریڈور کے قیام کے لیے 131 ارب روپے، گرین لائن بی آر ٹی پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے پانچ ارب جب کہ ندی نالوں سے تجاوزات کے خاتمے کے لیے 254 ارب روپے شامل ہیں۔
وفاقی وزارتِ منصوبہ بندی کی جانب سے جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس مد میں خرچ ہونے والی رقم میں بحریہ ٹاؤن کیس سے حاصل ہونے والی 125 ارب روپے کی رقم بھی شامل ہے جب کہ باقی ماندہ 611 ارب روپے کی رقم کا انتظام وفاقی حکومت کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے کراچی سرکلر ریلوے کو چینی حکومت کے قرضے سے بحال اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے حامی بھری ہے جس کا کریڈٹ دونوں حکومتیں اپنے اپنے طور پر لے رہی ہیں۔
اسی طرح سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی زمین سستے داموں الاٹ کرنے کے کیس میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اضافی ادائیگی کی رقم بھی دونوں حکومتیں اپنے کھاتے میں ڈال کر حساب دکھا رہی ہیں۔
ایک جانب صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پیسے صوبے کی ملکیت ہیں جب کہ دوسری جانب وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں یہ مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ یہ رقم وفاق کو دی جائے تاکہ وہ اپنی نگرانی میں صوبے میں اس رقم سے ترقیاتی کام کروا سکے۔
ادھر وفاقی وزیرِ اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کی بہتری کے لیے یہ پیسے اعتماد کے فقدان کی وجہ سے صوبائی حکومت کو نہیں دے سکتی۔ اسی لیے صوبائی 'کو آرڈینیشن اینڈ امپلی مینٹیشن کمیٹی' کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں دونوں حکومتوں کے ساتھ فوج کے افسران بھی شریک ہیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ صوبائی حکومت نے پچھلے 10، 12 برسوں میں کھربوں روپے وصول کیے لیکن وہ خرچ نہیں ہوئے اور حالیہ بارشوں کے بعد کی صورتِ حال نے صوبائی حکومت کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے نیک نیتی کے ساتھ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا ہے اور انہیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ کراچی کے شہریوں نے بے پناہ مسائل اور مشکلات کا سامنا کیا ہے۔
تجزیہ کار اور سیاسی پنڈت کیا کہتے ہیں؟
دونوں جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کے باوجود لفظی جنگ اور "سیاسی پوائنٹ اسکورنگ" کی بنیادی وجہ تجزیہ کاروں کے نزدیک اعتماد کا فقدان ہے۔
جامعہ اردو میں استاد اور تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ دونوں جماعتوں کے درمیان بد اعتمادی ہے۔ جہاں دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کے باوجود شہر کی ترقی کے لیے رقم مختص کرنے اور مل کر کام کرنے کا اعلان خوش آئند ہے، وہیں ان کے خیال میں یہ کراچی کے مسائل کا دائمی حل بالکل نہیں ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق کراچی کے مسائل کے مستقل حل کے لیے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کر کے با اختیار اور مضبوط نظام تشکیل دینا ضروری ہے۔ تاکہ بلدیاتی حکومت ان مسائل سے بہتر اور منظم انداز میں نمٹ سکے۔
ڈاکٹر توصیف احمد کے بقول پیپلز پارٹی سندھ میں بلدیاتی اداروں کو اختیارات تفویض کرنے سے بھاگتی رہی ہے تو دوسری جانب تحریکِ انصاف اب تک خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی مضبوط بلدیاتی نظام نہیں دے سکی، جس کا وہ دعویٰ کرتی آئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی کا اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ مضبوط اور بااختیار بلدیاتی حکومت نہ ہونا ہے۔ بلدیاتی حکومت کو بااختیار بنا کر یہاں کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔