پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو نیا مئیر مل گیا۔ لیکن کیا شہر کا نظام جیل سے چلایا جائے گا؟
بدھ کو شہر کی مقامی سیاست میں یہ سوال بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا، حتیٰ کہ مقامی میڈیا کے ساتھ ساتھ غیر ملکی میڈیا تجزئے بھی اسی سوال کے گرد گھوم رہے ہیں۔
سوال کی اصل وجہ یہ ہے کہ نو منتخب مئیر وسیم اختر کئی مقدمات میں زیر حراست ہیں اور جیل ہی فی الحال ان کا ’گھر‘ ہے۔
وہ جیل سے ہی بدھ کی صبح انتخاب لڑنے بکتر بند گاڑی میں کے ایم سی سٹی کونسل ہال لائے گئے تھے اور واپسی بھی ان کی جیل میں ہی ہوئی۔
انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہی میڈیا سے پہلی گفتگو کے دوران انہوں نے خود یہ کہا کہ وہ وزیر اعلیٰ سندھ سے یہ درخواست کریں گے کہ انہیں جیل میں دفتر بنانے کی اجازت دی جائے یا کوئی ایسا نظام بنایا جائے جس سے وہ شہری امور جیل سی ہی چلاسکیں۔
وسیم اختر نے کہا کہ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے بھی اپنی سرکاری ذمہ داری ںبھائیں گے۔
اس بارے میں ایم کیو ایم کی رہنما نسرین جلیل کا کہنا ہے ’’ہم حکومت سے کہیں گے کہ وہ جیل میں ہی وسیم اختر کو آفس بنا کر دے جہاں سے وہ شہر کے معاملات چلا سکیں جبکہ جیل سے باہر ہم سب ان کی مدد اور معاونت کے لئے موجود ہوں گے۔‘‘
وسیم اختر مئیر منتخب ہونے سے پہلے رکن پارلیمنٹ بھی تھے۔ ان پر 12 مئی 2007 کے ہنگاموں، ان میں ہونے والی ہلاکتوں اور سیکورٹی فورسز کو مطلوب مبینہ دہشت گردوں کو طبی سہولتوں کی فراہمی میں مدد دینے کا الزام ہے اور اسی الزام میں وہ کم و بیش ایک ماہ سے جیل میں قید ہیں۔