کراچی —
سپریم کورٹ نے حکومت کو تین ماہ کے اندر کراچی میں زمینوں کا سروے مکمل کرنے اور شہر میں بغیر نمبر پلیٹ چلنے والی گاڑیوں کے خلاف کاروائی کے احکامات دیے ہیں۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے عید کی تعطیلات کے بعد بدھ کو دوبارہ کراچی رجسٹری میں شہر میں امن و امان سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں قائم بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس سرمد جلال عثمانی،جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔
دورانِ سماعت بینچ نے ریمارکس دیے کہ سرکاری زمینوں کی حفاظت حکومت کا فرض ہے اور ان کے سروے کے لیے کسی عدالتی حکم کی ضرورت نہیں۔ سروے نہ ہونے کے باعث زمینوں پر قبضے ہورہے ہیں۔
بینچ کے سربراہ انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد صوبے میں جان بوجھ کر ریونیو کا ریکارڈ جلایا گیا کیوں کہ سرکاری زمینوں پر قابض بااثر افراد زمینوں کا سروے نہیں ہونے دینا چاہتے۔
چیف سیکریٹری سندھ راجہ غلام عباس نے عدالت کو بتایا کہ سروے کے لیے وزیرِ اعلیٰ سندھ سے سمری منظور کرالی گئی ہے۔ اس موقع پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتاح ملک نے عدالت سے زمینوں کے سروے کے لیے ایک سال کا وقت دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے سروے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تین ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا۔
یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو 2005ء میں کراچی میں زمینوں کا سروے کرنے کا حکم دیا تھا جس پر عمل درآمد نہ ہونے پر سپریم کورٹ کے بینچ نے گزشتہ سماعت کے دوران میں سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے چیف سیکریٹری سمیت چار اعلیٰ افسران کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے تھے۔
بینچ نے گزشتہ سماعت کے دوران میں ریمارکس دیے تھے کہ کراچی میں بدامنی کا اصل سبب زمینوں پر قبضہ اور تجاوزات ہیں اور شہر میں زمینوں کے نئے مالکان پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بدھ کو دورانِ سماعت بینچ نے شہر میں چلنے والی بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر بھی برہمی ظاہر کرتے ہوئےآئی جی سندھ کو ان کی ضبطی کا حکم دیا۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ یہی گاڑیاں شہر میں جرائم میں استعمال ہوتی ہیں۔انہوں نے حکام کو گاڑیوں کی طرح موٹر سائیکلوں کی بھی سرکاری نمبر پلیٹ متعارف کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سیکریٹری ایکسائز اور ڈی آئی جی ٹریفک سمیت دیگر افسران کو اگلی سماعت پر طلب کرلیا۔
عدالت نے شہر میں ملزمان کی پیرول پر رہائی پر بھی برہمی ظاہر کرتے ہوئے پولیس حکام سے اس بارے میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔
دورانِ سماعت بینچ نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں سیکیورٹی کی ابتر صورتِ حال کے باعث شہر میں کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بینچ کےرکن جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ بھتہ مافیا کے خوف سے کھربوں روپے کا سرمایہ کراچی سے بنگلہ دیش منتقل ہورہا ہے۔ تاجر پولیس سے اس لیے تعاون نہیں کرتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں تحفظ نہیں ملے گا۔
بینچ نے شہر میں طالبان کی موجودگی کے دعووں کے بارے میں بھی کراچی پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے۔ مقدمے کی آئندہ سماعت جمعرات کو ہوگی۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے عید کی تعطیلات کے بعد بدھ کو دوبارہ کراچی رجسٹری میں شہر میں امن و امان سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں قائم بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس سرمد جلال عثمانی،جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔
دورانِ سماعت بینچ نے ریمارکس دیے کہ سرکاری زمینوں کی حفاظت حکومت کا فرض ہے اور ان کے سروے کے لیے کسی عدالتی حکم کی ضرورت نہیں۔ سروے نہ ہونے کے باعث زمینوں پر قبضے ہورہے ہیں۔
بینچ کے سربراہ انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد صوبے میں جان بوجھ کر ریونیو کا ریکارڈ جلایا گیا کیوں کہ سرکاری زمینوں پر قابض بااثر افراد زمینوں کا سروے نہیں ہونے دینا چاہتے۔
چیف سیکریٹری سندھ راجہ غلام عباس نے عدالت کو بتایا کہ سروے کے لیے وزیرِ اعلیٰ سندھ سے سمری منظور کرالی گئی ہے۔ اس موقع پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتاح ملک نے عدالت سے زمینوں کے سروے کے لیے ایک سال کا وقت دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے سروے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تین ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا۔
یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو 2005ء میں کراچی میں زمینوں کا سروے کرنے کا حکم دیا تھا جس پر عمل درآمد نہ ہونے پر سپریم کورٹ کے بینچ نے گزشتہ سماعت کے دوران میں سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے چیف سیکریٹری سمیت چار اعلیٰ افسران کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے تھے۔
بینچ نے گزشتہ سماعت کے دوران میں ریمارکس دیے تھے کہ کراچی میں بدامنی کا اصل سبب زمینوں پر قبضہ اور تجاوزات ہیں اور شہر میں زمینوں کے نئے مالکان پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بدھ کو دورانِ سماعت بینچ نے شہر میں چلنے والی بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر بھی برہمی ظاہر کرتے ہوئےآئی جی سندھ کو ان کی ضبطی کا حکم دیا۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ یہی گاڑیاں شہر میں جرائم میں استعمال ہوتی ہیں۔انہوں نے حکام کو گاڑیوں کی طرح موٹر سائیکلوں کی بھی سرکاری نمبر پلیٹ متعارف کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سیکریٹری ایکسائز اور ڈی آئی جی ٹریفک سمیت دیگر افسران کو اگلی سماعت پر طلب کرلیا۔
عدالت نے شہر میں ملزمان کی پیرول پر رہائی پر بھی برہمی ظاہر کرتے ہوئے پولیس حکام سے اس بارے میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔
دورانِ سماعت بینچ نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں سیکیورٹی کی ابتر صورتِ حال کے باعث شہر میں کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بینچ کےرکن جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ بھتہ مافیا کے خوف سے کھربوں روپے کا سرمایہ کراچی سے بنگلہ دیش منتقل ہورہا ہے۔ تاجر پولیس سے اس لیے تعاون نہیں کرتے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں تحفظ نہیں ملے گا۔
بینچ نے شہر میں طالبان کی موجودگی کے دعووں کے بارے میں بھی کراچی پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے۔ مقدمے کی آئندہ سماعت جمعرات کو ہوگی۔