رسائی کے لنکس

کراچی کی صورت حال پر قومی اسمبلی میں بحث


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

معیشت کی شہ رگ سمجھے جانے والے شہر کراچی میں امن وامان کی خراب صورتحال اور تشدد کے بظاہر نہ رکنے والی سلسلے میں آئے روز ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف منگل کو قومی اسمبلی میں اس معاملے پر بحث کا باضابطہ آغاز ہوا۔

بحث کے دوران حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکین نے حکومت پر زور دیا کہ کراچی میں جاری پرتشدد کارروائیوں کے سدباب کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی حیدر عباس رضوی کا کہنا تھا کہ اگر معاملات کو درست کرنے کے لیے مزید تاخیر کی گئی تو اس سے ناقابل تلافی نقصان کر اندیشہ ہے۔ ان کے بقول پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ارکین پارلیمان کو بتایا جائے کہ کراچی میں تشدد کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کیا ہے اور ان میں ملوث کتنے افراد کو گرفتار کرکے انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہے۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی سعد رفیق نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جو کراچی کے مسائل کے اصل حقائق معلوم کر کے پارلیمان کو اس بارے میں آگاہ کرے۔

اُدھر کراچی میں پرتشدد واقعات میں اضافے اور امن وامان کی خراب صورت حال کے تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی زیرصدارت منگل کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ اجلاس کے بعد صوبائی وزیرداخلہ منظور وسان کے ہمراہ ذرائع ابلا غ کے نمائندوں سے گفتگو میں رحمن ملک نے کہا کہ حکومت نے شہر میں ہلاکتوں اور پرتشدد کارروائیوں میں ملوث عناصر کے خلاف متاثرہ علاقوں میں بھرپور کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ ”سخت ایکشن ہوگا اور عوام کارروائی ہوتی ہوئی دیکھیں گے۔“

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں سیاسی اور لسانی بنیادوں پر ہدف بنا کر قتل کی واقعات میں ملوث افراد کی تصاویر یا ویڈیو فراہم کرنے والے کو ایک کروڑ روپے جب کہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کے بارے میں معلومات مہیا کرنے والے کو پچاس لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔

دریں اثناء منگل کو بھی کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ سے کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں ۔

ایک روز قبل انسانی حقوق کی علمبردارملک کی سب سے بڑی غیر جانب دار تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کراچی کی صورتحال پر اپنی ایک عبوری تفتیش رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ کراچی کے حالات خراب کرنے کی زیادہ تر ذمہ دارشہر کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور مسائل کا حل بھی ان ہی سیاسی قوتوں کے پاس ہے۔

پولیس اور انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ لگ بھگ ایک کروڑ 80 لاکھ کی آبادی والے شہر میں صرف جولائی کے مہینے کے دوران تشدد کے واقعات میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سیاسی کارکن بھی شامل تھے۔

XS
SM
MD
LG