افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ اُن کا ملک طالبان کے ساتھ بات چیت کی امریکی کوششوں اورمغربی ملکوں کے ساتھ رابطوں کے لیے قطر میں سیاسی دفتر کھولنے کے طالبان کے فیصلے کی حمایت کرتا ہے۔
یہ اعلان کابل میں بدھ کو صدارتی آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کیا گیا ہے۔
’’افغانستان امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے اتفاق کرتا ہے جن کا مقصد قطر میں ایک دفتر کا قیام ہے۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ بات چیت کا یہ سلسلہ ’’افغانستان کو جنگ، سازش اور معصوم لوگوں کی قتل وغارت سے محفوظ بنا سکتا ہے۔ ‘‘
ایک روز قبل طالبان نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر امریکہ کے ساتھ امن و مفاہمت کے لیے ابتدائی رابطوں کی تصدیق کی تھی۔
ذرائع ابلاغ کو منگل کے روز بھیجے گئے اپنے ایک مفصل بیان میں طالبان نے کہا تھا کہ امن بات چیت کے لیے روز اول سے وہ اس موقف پر قائم ہیں کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے پہلے تمام غیر ملکی افواج کو ملک سے نکلنا ہوگا تاکہ افغان اپنے لیے ایک ایسی اسلامی حکومت کا انتخاب کر سکیں جس سے کسی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس وقت افغانستان میں ان کے حامیوں کا گہرا اثر و رسوخ قائم ہو چکا ہے۔ ’’لیکن امن مذاکرات کی خاطر وہ ملک سے باہر ایک سیاسی دفتر قائم کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس موضوع پر متعلقہ فریقین بشمول قطر کے ساتھ ابتدائی رابطوں میں اتفاق رائے ہو گیا ہے۔‘‘
اُنھوں نے یہ نہیں بتایا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر کب سے کام شروع کر دے گا۔ ’’اگر کسی مرحلے پر قیدیوں کے تبادلے پر بھی اتفاق رائے ہوتا ہے تو طالبان نے گوانتانامو بے میں امریکی قیدخانے سے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘
ترجمان نے عندیہ دیا ہے کہ طالبان امن مذاکرات صدر حامد کرزئی کی انتظامیہ سے نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری سے کریں گے کیونکہ بقول ترجمان کے 10 سال قبل افغانستان میں شروع ہونے والی لڑائی کے دو بنیادی فریق طالبان اور امریکہ کی قیادت میں اس کے اتحادی ہیں۔
اُدھر افغانستان میں امن و مفاہمت کی کوششوں میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی تیزی آئی ہے اور مفرور افغان کمانڈر گلبدین حکمت یار کی تنظیم حزب اسلامی کا ایک تین رکنی اعلٰی سطحی وفد بھی کابل میں صدر کرزئی سے ملاقات کرنے کے بعد اسلام آباد واپس پہنچ گیا ہے۔
اس وفد کی قیادت گلبدین حکمت یار کے داماد غیرت باحیر نے کی جو تنظیم کے سیاسی اُمور کے نگران بھی ہیں۔
غیرت باحیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ تین رکنی وفد نے کابل کا دورہ افغان حکومت اور امریکی حکام کی دعوت پر کیا جہاں پیر کے روز اُن کی ملاقات صدر حامد کرزئی سے ہوئی تھی۔
اُنھوں نے دورہ کابل کے دوران حزب اسلامی کے نمائندہ وفد کی افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے سربراہ جنرل جان ایلن اور امریکی سفیر رائن سی کروکر سے ملاقات کی بھی تصدیق کی جو اُن کے مطابق ’’انتہائی مفصل، بلاواسطہ اور فائدہ مند‘‘ رہی۔
’’میرے خیال میں امریکی ماضی کی نسبت زیادہ حقیقت پسند ہو گئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پرانے نعروں پر اٹکے رہنے کی بجائے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔‘‘
غیرت باحیر کے بقول زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے اور حقیقت یہی ہے کہ امریکیوں کو ’’شدت پسندوں، مجاہدین اور دیگر عناصر‘‘ سے مذاکرات کرنے چاہیئں۔
’’غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی جنگ کے تسلسل کا ایک جواز فراہم کرتی ہے، جب یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو بقیہ مسائل سے بڑی آسانی سے نمٹا جا سکے گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک افغانستان کے داخلی اُمور میں دخل انداز نا ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو خود افغان مصالحت اور وقت کی ضرورت کے مطابق نظام متعارف کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
حزب اسلامی کے ایک وفد نے مارچ 2010ء میں بھی راز داری سے کابل کا دورہ کیا تھا جہاں اُس نے افغان اور امریکی حکام کے سامنے اپنا 15 نکاتی مجوزہ امن منصوبہ بھی پیش کیا تھا۔
اس منصوبہ کی بنیادی شرط بھی افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہے لیکن ابتدائی طور پر اتحادی افواج کو شہروں سے نکل کر اپنی بیرکوں میں واپس جانے کا کہا گیا ہے۔ مزید برآں حزب اسلامی نے موجودہ افغان حکومت اور پارلیمان کی زیر نگرانی انتخابات کے انعقاد پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں موجود غیر ملکی جنگجوؤں کو بھی ملک میں رہنے نہیں دیا جائے گا۔