افغانستان اور پاکستان کے لیےامریکہ کےخصوصی ایلچی مارک گروسمن نے قطر میں اپنا سفارتی دفتر کھولنے کے طالبان کے اقدام کی تائید کی ہے۔
افغان قیادت سے کابل میں دو روزہ مفصل بات چیت کے بعد نائب وزیر خارجہ جاوید لُوڈن کے ہمراہ اتوار کی شام ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں امریکی سفارت کار نے کہا کہ طالبان سے بات چیت کے معاملےاور قطر میں سیاسی دفتر کھولنے سے قبل ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
’’افغانستان میں مسلح تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں میں پیش رفت کے لیے ضروری ہے کہ افغان طالبان بات چیت میں شمولیت کی واضح یقین دہانی کرائیں اور بین الاقوامی دہشت گردوں سےاپنے تعلقات بھی ختم کریں۔‘‘
گروسمن نے کہا کہ افغانستان اور امریکہ، افغانستان میں امن عمل کی حمایت کرتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ سفارتی دفتر کی تفصیلات طے کرنے کے لیے سب سے پہلے قطر اور افغان حکومت کے درمیان براہِ راست رابطہ ضروری ہے اور افغان حکام نے اُنھیں بتایا ہے کہ کابل اس مقصد کے لیے دوحہ سے آنے والے وفد کا خیر مقدم کرے گا۔
نائب وزیرِ خارجہ لُوڈن نے بھی طالبان دفتر کھولنے پر اپنی حمایت کا اظہار کیا اور کہا کہ افغان حکومت امریکہ کے اُس ممکنہ اقدام کی بھی حمایت کرے گی جس کے تحت کچھ طالبان قیدیوں کو گوانتانامو بے سے رہا کر کے قطر منتقل کردیا جائے گا۔
’’اگر امریکہ اِن قیدیوں کو قطر منتقل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُس سے یہ سمجھا جائے گا کہ وہ لوگ اپنے خاندانوں سے ملیں گے اور افغان حکومت اِس کی حمایت کرے گی۔ لیکن، جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ امریکہ اگر یہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو ہم اُس کے ساتھ ہیں۔ امریکی حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہے۔ لیکن، آپ کو یہ بھی جاننا ضروری ہوگا کہ قیدی خود کیا چاہتے ہیں‘‘۔
لیکن مارک گروسمن نے کہا کہ امریکہ نے قیدیوں کی منتقلی کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
طالبان نے حال ہی میں یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں اور امریکی حکام کے ساتھ ہونے والے ابتدائی رابطوں مین فریقین نے قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر کھولنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم، اُنھوں نے اپنا یہ موقف بھی دہرایا تھا کہ وہ افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کی موجودگی تک اُن کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
مارک گروسمن نے افغانستان جانے سے پہلے ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بھارت کا مختصر دورہ کیا اور پیر کو وہ قطر میں حکام کو افغان قیادت سے بات چیت سے آگاہ کریں گے۔ امریکی ایلچی نے کہا کہ وہ پاکستان بھی جانا چاہتے تھے، لیکن وہاں کی قیادت نے اُن سے یہ کہا ہے کہ جب تک اسلام آباد واشنگٹن سے تعلقات پر نظرثانی کا عمل مکمل نہیں کرلیتا، وہ پاکستان نہ آئیں۔
لیکن انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ افغانستان میں امن کے عمل میں پاکستان کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔
’’امن کے عمل میں اُس وقت تک کوئی جامع معاہدہ طے نہیں پا سکتا جب تک پاکستان اُس کا حصہ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان سے بدستور صلاح و مشورہ کرتے رہے ہیں۔‘‘