رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں احتجاج اور مظاہرے، پابندیاں مزید سخت کر دی گئیں


دفعہ 144 کے تحت کرفیو جیسی پابندیوں کے نفاذ کا اعلان جمعے کی صبح کیا گیا — فائل فوٹو
دفعہ 144 کے تحت کرفیو جیسی پابندیوں کے نفاذ کا اعلان جمعے کی صبح کیا گیا — فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جمعے کو پابندیاں دوبارہ سخت کر دی گئی ہیں جب کہ وادی میں غیر معمولی حفاظتی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔

حفاظتی دستوں نے سرینگر کے تمام حسّاس اور گنجان آباد علاقوں کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے۔

مرکزی سڑکوں کو خاردار تاریں لگانے کے ساتھ ساتھ بکتر بند گاڑیاں کھڑی کر کے آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت کرفیو جیسی پابندیوں کے نفاذ کا اعلان جمعے کی صبح پولیس کی گاڑیوں سے کیا گیا۔

حکام کے مطابق امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سرینگر اور وادی کے دیگر حصوں میں پابندیاں نافذ کی جا رہی ہیں — فائل فوٹو
حکام کے مطابق امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سرینگر اور وادی کے دیگر حصوں میں پابندیاں نافذ کی جا رہی ہیں — فائل فوٹو

کئی دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی حفاظتی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور ممکنہ مظاہروں کو روکنے کے لیے بڑی تعداد میں حفاظتی دستوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

حکومتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے سرینگر اور وادی کے بعض دوسرے علاقوں میں احتیاطی طور پر حفاظتی پابندیاں نافذ کی جا رہی ہیں۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف مزاحمت جاری

بھارتی حکومت نے پانچ اگست کو جمّوں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔

مرکزی حکومت کے اقدام کے خلاف وادی میں عوامی سطح پر شدید غصہ پایا جاتا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں احتجاج بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

کشمیر میں آٹھ ہفتوں سے جاری پابندیوں کے باعث معمولات زندگی مفلوج ہیں — فائل فوٹو
کشمیر میں آٹھ ہفتوں سے جاری پابندیوں کے باعث معمولات زندگی مفلوج ہیں — فائل فوٹو

کشمیر میں مسلسل 54 روز سے معمولات زندگی مفلوج ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں ٹھپ اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے۔

تعلیمی ادارے یا تو مکمل طور پر بند ہیں یا ان میں طلبا کی غیر حاضری کے سبب درس و تدریس کا عمل نہیں ہو رہا۔

وادی میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں۔

مقامی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سرگرم کارکن جن میں سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں، پانچ اگست سے زیرِ حراست ہیں۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں کو بھی پابندِ سلاسل رکھا گیا ہے۔

جمعے کو بھارت مخالف مظاہرے

کشمیر میں پابندیوں کے باوجود جمعے کو سرینگر کے کم از کم تین علاقوں میں لوگوں نے سڑکوں پر آکر بھارت مخالف مظاہرے کیے۔

آنچار کے علاقے میں نکالے گئے ایک جلوس کے شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز بھی پکڑے ہوئے تھے جن پر ’ہم امید کرتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرلے گا‘ کے نعرے درج تھے۔

مظاہرے میں شامل ایک نوجوان نے کہا کہ ’ہمیں پہلے اللہ پر بھروسہ ہے اور پھر عمران خان پر۔‘

اس سے قبل ایک مقامی مسجد کے احاطے میں منعقد کیے گیے جلسے کے دوران ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ جنگ یا طاقت کے استعمال سے حل نہیں کیا جا سکتا۔

ہائی سکیورٹی الرٹ کا اعلان

بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بدھ اور جمعرات کو سرینگر میں انتظامیہ، فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں کے اعلیٰ کمانڈروں اور افسران سے ملاقاتیں کیں۔

سرینگر سے جاری کیے گیے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر پاکستان کی پشت پناہی میں سرگرم عسکریت پسند اور ان کے وادی میں موجود کارکنوں اور حامیوں نے امن و امان میں رخنہ ڈالنے اور پر تشدد کارروائیاں کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسی وجہ سے کشمیر میں ہائی سیکورٹی الرٹ جاری کیا گیا ہے۔

کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں — فائل فوٹو
کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں — فائل فوٹو

بیان کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر کو مطلع کیا گیا ہے کہ پاکستان کی حمایت یافتہ مختلف عسکریت پسند تنظیمیں لوگوں پر ظلم کر رہی ہیں۔ ان سے منسلک افراد دکان داروں کو قتل کر رہے ہیں اور کسانوں کو دھمکا رہے ہیں۔ اس کے بعد اجیت دوول نے ایسے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

اجیت دوول نے نیم فوجی دستوں، بھارتی کشمیر کی پولیس اور انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کے دل جیتنے کے لیے ان کی ضرورتوں کو پورا کریں جبکہ عوامی شکایات کا فوری ازالہ کریں۔

قومی سلامتی کے مشیر نے ہدایات جاری کی ہیں کہ تمام اہم تنصیبات کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے، جبکہ ایسے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں جن کی بدولت صورتِ حال پر کڑی نگاہ رکھنا ممکن ہو سکے۔

سرینگر کی سڑکوں کو خاردار تاروں کے ساتھ بکتر بند گاڑیاں کھڑی کرکے نقل و حمل کے لیے بند کردیا گیا ہے — فائل فوٹو
سرینگر کی سڑکوں کو خاردار تاروں کے ساتھ بکتر بند گاڑیاں کھڑی کرکے نقل و حمل کے لیے بند کردیا گیا ہے — فائل فوٹو

عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز شروع کرنے کا فیصلہ

پولیس ذرائع کے مطابق اجیت دوول نے حفاظتی دستوں کو عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔

بھارتی حکومت نے جمّوں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کے پیش نظر ان آپریشنز کو معطل کیا تھا۔

اس عرصے میں حفاظتی دستوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان دو مقابلوں کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ جن میں مبینہ طور پر کالعدم لشکرِ طیبہ کے دو مشتبہ اراکین مارے گئے۔

پولیس ذرائع کے مطابق اجیت دوول نے حفاظتی دستوں کو عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز شروع کرنے کا حکم دیا ہے — فائل فوٹو
پولیس ذرائع کے مطابق اجیت دوول نے حفاظتی دستوں کو عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز شروع کرنے کا حکم دیا ہے — فائل فوٹو

بعض عہدے داروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران مقامی عسکریت پسندوں کی افرادی قوّت میں اضافے اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی کشمیر میں داخل ہونے کی غیر مصدقہ اطلاعات مل رہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کا اجلاس توجّہ کا مرکز

کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے ہر جمعے کو مظاہروں کے پیشِ نظر حفاظتی اقدامات مزید سخت کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ جمعے کو ہی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے خطاب کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مقامی سطح پر پائے جانے والی قیاس آرائیوں اور ہنگامی صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس اور فوج کے دستے انتہائی سرگرم نظر آ رہے ہیں۔

بھارتی وزیرِ اعظم جمعے کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

بھارت پہلے ہی یہ واضح کر چکا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی اپنے خطاب کے دوران کشمیر کا ذکر نہیں کریں گے کیوں کہ بھارتی حکومت کے مطابق بھارت کے آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنا اندرونی معاملہ ہے۔

کشمیری عوام کی اکثریت کو یہ امید ہے کہ عمران خان جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں پیش کریں گے — فائل فوٹو
کشمیری عوام کی اکثریت کو یہ امید ہے کہ عمران خان جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں پیش کریں گے — فائل فوٹو

البتہ کشمیری عوام کی اکثریت کو امید ہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں پیش کریں گے۔

’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کچھ شہریوں نے اس توقع کا بھی اظہار کیا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران کشمیر کے حوالے سے کچھ اہم اقدامات بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن کئی افراد نے اسے خوش فہمی اور حقیقت پسندی سے عاری خیال قرار دیا۔

جمعرات کو سرینگر میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شامل شہری عبدالرّزاق نے کہا کہ 27 ستمبر ہمارے لیے انتہائی اہم دن ہوگا۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حوالے سے جو بھی ہو گا۔ اس سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بین الاقوامی برادری کی سوچ اور لائحہ عمل کا تعین ہوگا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG