واشنگٹن —
بھارت کی ریاست دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کجریوال نے بدعنوانی کے خلاف قانون منظور کرانے میں ناکامی کےبعد احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
کجریوال کے ہمراہ ان کی 'عام آدمی پارٹی' سے تعلق رکھنے والے کابینہ کے تمام وزرا بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے ہیں جس کے بعد سابق وزیرِاعلیٰ نے اعلان کیا ہے کہ وہ دہلی کے گورنر سے ریاستی اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کریں گے۔
جمعے کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں دہلی کے وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دلی کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد بدعنوانی کے خلاف قانون منظور کرائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر ان کی حکومت کی جانب سے مجوزہ قانون منظور کرانے کی کوشش ناکام بنادی ہے جس پر وہ اپنی حکومت چھوڑ رہے ہیں۔
اس سے قبل جمعے کو کجریوال کی جماعت نے ریاستی اسمبلی میں بدعنوانی کے خلاف مجوزہ 'جین لوک پال ' قانون بحث کے لیے پیش کیا تھا جسے ایوان کی اکثریتی جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' اور 'کانگریس' نے مسترد کردیا تھا۔
خیال رہے کہ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ نے اپنے ایک خط میں ریاستی اسمبلی کے ارکان سے کہا تھا کہ چوں کہ انہوں نے مجوزہ قانون کی منظوری نہیں دی ہے لہذا ارکانِ اسمبلی اس مسودے پر غور نہ کریں۔
لیکن 'عام آدمی پارٹی' کی حکومت نے مجوزہ قانون کو ہر صورت اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کیا تھا جس کی 'بی جے پی' اور 'کانگریس' نے مخالفت کرتے ہوئے اس اقدام کو خلافِ ضابطہ قرار دیا تھا۔
جمعے کو بِل بحث کے لیے پیش کرنے کی قرارداد ریاستی اسمبلی کے 70 میں سے 42 ارکان نے مسترد کردی تھی جب کہ صرف 27 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
بِل پیش کرنے کی قرارداد مسترد ہونے کے بعد اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعلیٰ نے اپنے مستعفی ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بدعنوانی کےخلاف قانون منظور کرانے کے لیے اگر انہیں ہزار بار بھی وزارتِ اعلیٰ چھوڑنا پڑی تو وہ دریغ نہیں کریں گے۔
بعد ازاں پارٹی دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کجریوال نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت نے بھارت کی مشہور کاروباری شخصیت مکیش امبانی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس پر، ان کے بقول "انہیں سبق سکھانے کے لیے 'بی جے پی' اور 'کانگریس' نے اتحاد کرلیا ہے"۔
بدعنوانی کے خلاف سخت موقف رکھنے والی کجریوال کی جماعت 'عام آدمی پارٹی' نے گزشتہ سال دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں ریاستی اسمبلی کی 70 میں سے 28 نشستیں حاصل کرکے تجزیہ کاروں کو حیران کردیا تھا۔
انتخاب میں بھارتیہ جنتاپارٹی 31 نشستیں حاصل کرکے ایوان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی لیکن 36 نشستوں کی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے سبب 'بی جے پی' نے حکومت سازی نہ کرنے اور 'عام آدمی پارٹی' کو حکومت بنانے کا موقع دینے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں مرکز میں حکمران 'کانگریس' کے ریاستی اسمبلی میں کامیابی حاصل کرنے والے آٹھ ارکان کی غیر مشروط حمایت کے بعد کجریوال نے ریاستی حکومت تشکیل دی تھی۔
لیکن اپنے اقتدار کے 49 روز کے دوران دہلی کے وزیرِاعلیٰ اپنے عوامی طرزِ حکمرانی اور بدعنوانی جیسے معاملات پر سخت موقف کے باعث مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ مستقل محاذ آرائی کی حالت میں رہے تھے۔
تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کر رکھی ہے کہ اپنے پہلے ہی انتخاب میں حیران کن کامیابی حاصل کرنے والی 'عام آدمی پارٹی' رواں سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں بھارت میں کئی دہائیوں سے سرگرم مرکزی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق امکان ہے کہ بدعنوانی جیسے مسئلے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والے کجریوال کے اس اقدام سے ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
کجریوال کے ہمراہ ان کی 'عام آدمی پارٹی' سے تعلق رکھنے والے کابینہ کے تمام وزرا بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے ہیں جس کے بعد سابق وزیرِاعلیٰ نے اعلان کیا ہے کہ وہ دہلی کے گورنر سے ریاستی اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کریں گے۔
جمعے کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں دہلی کے وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دلی کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد بدعنوانی کے خلاف قانون منظور کرائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر ان کی حکومت کی جانب سے مجوزہ قانون منظور کرانے کی کوشش ناکام بنادی ہے جس پر وہ اپنی حکومت چھوڑ رہے ہیں۔
اس سے قبل جمعے کو کجریوال کی جماعت نے ریاستی اسمبلی میں بدعنوانی کے خلاف مجوزہ 'جین لوک پال ' قانون بحث کے لیے پیش کیا تھا جسے ایوان کی اکثریتی جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' اور 'کانگریس' نے مسترد کردیا تھا۔
خیال رہے کہ دہلی کے لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ نے اپنے ایک خط میں ریاستی اسمبلی کے ارکان سے کہا تھا کہ چوں کہ انہوں نے مجوزہ قانون کی منظوری نہیں دی ہے لہذا ارکانِ اسمبلی اس مسودے پر غور نہ کریں۔
لیکن 'عام آدمی پارٹی' کی حکومت نے مجوزہ قانون کو ہر صورت اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کیا تھا جس کی 'بی جے پی' اور 'کانگریس' نے مخالفت کرتے ہوئے اس اقدام کو خلافِ ضابطہ قرار دیا تھا۔
جمعے کو بِل بحث کے لیے پیش کرنے کی قرارداد ریاستی اسمبلی کے 70 میں سے 42 ارکان نے مسترد کردی تھی جب کہ صرف 27 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
بِل پیش کرنے کی قرارداد مسترد ہونے کے بعد اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعلیٰ نے اپنے مستعفی ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بدعنوانی کےخلاف قانون منظور کرانے کے لیے اگر انہیں ہزار بار بھی وزارتِ اعلیٰ چھوڑنا پڑی تو وہ دریغ نہیں کریں گے۔
بعد ازاں پارٹی دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کجریوال نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت نے بھارت کی مشہور کاروباری شخصیت مکیش امبانی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس پر، ان کے بقول "انہیں سبق سکھانے کے لیے 'بی جے پی' اور 'کانگریس' نے اتحاد کرلیا ہے"۔
بدعنوانی کے خلاف سخت موقف رکھنے والی کجریوال کی جماعت 'عام آدمی پارٹی' نے گزشتہ سال دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں ریاستی اسمبلی کی 70 میں سے 28 نشستیں حاصل کرکے تجزیہ کاروں کو حیران کردیا تھا۔
انتخاب میں بھارتیہ جنتاپارٹی 31 نشستیں حاصل کرکے ایوان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی لیکن 36 نشستوں کی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے سبب 'بی جے پی' نے حکومت سازی نہ کرنے اور 'عام آدمی پارٹی' کو حکومت بنانے کا موقع دینے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں مرکز میں حکمران 'کانگریس' کے ریاستی اسمبلی میں کامیابی حاصل کرنے والے آٹھ ارکان کی غیر مشروط حمایت کے بعد کجریوال نے ریاستی حکومت تشکیل دی تھی۔
لیکن اپنے اقتدار کے 49 روز کے دوران دہلی کے وزیرِاعلیٰ اپنے عوامی طرزِ حکمرانی اور بدعنوانی جیسے معاملات پر سخت موقف کے باعث مرکزی حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ مستقل محاذ آرائی کی حالت میں رہے تھے۔
تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کر رکھی ہے کہ اپنے پہلے ہی انتخاب میں حیران کن کامیابی حاصل کرنے والی 'عام آدمی پارٹی' رواں سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں بھارت میں کئی دہائیوں سے سرگرم مرکزی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق امکان ہے کہ بدعنوانی جیسے مسئلے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والے کجریوال کے اس اقدام سے ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔